جے آئی ٹی کی تفتیشی رپورٹ ناقابل قبول شہادت ہے ، نواز شریف

مولانا کے دھرنے میں شرکت: نوازشریف نے داماد کے ہاتھ اہم پیغام بھجوا دیا

فائل فوٹو


اسلام آباد: سابق وزیراعظم نوازشریف نےپاناما کیس کی جانچ پڑتال کے لیے بنائی گئی مشترکہ تحقیقاتی ٹیم( جی آئی ٹی) کی رپورٹ کو ناقابل قبول شہادت قرار دیا ہے۔

اسلام آباد کی احتساب عدالت میں ایون فیلڈ پراپرٹیز (لندن فلیٹس) ریفرنس کیس میں بیان قلمبند کراتے ہوئے نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی کی دس والیم پر مشتمل خود ساختہ رپورٹ  دائر درخواستیں نمٹانے کے لیے تھی ان درخواستوں کو بطور شواہد پیش نہیں کیا جا سکتا۔

سابق وزیراعظم نے اپنے اعتراض میں کہا کہ سپریم کورٹ نے  درخواستوں  کو جلد نمٹانے کے لیے جے آئی ٹی کو اختیارات دیئے ، ایسے اختیارات دینا غیر مناسب اور غیر متعلقہ تھے۔

روسٹرم پر کھڑے ہوکر نوازشریف نے کہا کہ جے آئی ٹی میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمائندے کو شامل کرنا درست نہیں تھا، جے آئی ٹی میں تعیناتی کے وقت نعمان سعید آئی ایس آئی میں نہیں تھے۔

نوازشریف نے اپنے بیان میں کہا کہ عرفان منگی کی تعیناتی کا کیس تاحال سپریم کورٹ میں ہے لیکن انہیں جےآئی ٹی میں شامل کیا گیا۔ نعمان سعید کو آوَٹ سورس کیا گیا ان کی تنخواہ سرکاری ریکارڈ سے ظاہر نہیں ہوتی۔

نوازشریف نے بتایا کہ حدیبیہ پیپر ملز کے معاملات میرے مرحوم والد دیکھتے تھے میں اس میں کسی بھی طور پر ملوث نہیں رہا، مجھے پرویز مشرف دور آمریت میں جلا وطن کر دیا گیا زیادہ عرصہ باہر رہنے کی وجہ سے حدیبیہ پیپر ملز کے طویل مدتی قرض کا علم نہیں۔

نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ جس شخص نے جے آئی ٹی کی کاپی حاصل کرنے کے لیے درخواست کی اس پر سنجیدہ نوعیت کے سوالات اٹھے اور جس نے جے آئی ٹی کی کاپی حاصل کی اسے شامل تفتیش یا گواہ نہیں بنایا گیا۔

تفتیشی افسر نے تفتیش نہیں کی کہ والیم فور سپریم کورٹ میں جمع ہونے کے بعد کس نے کب اور کیسے نئے دستاویزات اس میں شامل کیے۔ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ جے آئی ٹی کی طرف سے ریکارڈ کیے گئے بیان کا مخصوص حصہ والیم ٹو ری پروڈیوس کیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ جے آئی ٹی رپورٹ میں شواہد نہیں ہیں کہ کیس کا ریکارڈ کب ، کیسے اورکس نے اکٹھا کیا۔ اکٹھے کئے گئے ریکارڈ کا ریکوری میمو بھی نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے تجزیئے کی بنیاد پر ریفرنس دائر کرنے کا نہیں کہا تھا۔

حدیبیہ پیپر ملز اور گلف اسٹیل کے قیام سے متعلق نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا کہ اس میں میرا کوئی کردار نہیں، میرے براہ راست علم میں نہیں کہ گلف اسٹیل کے قیام کے لیے فنڈز کہاں سے آئے۔

اپنا بیان قلم بند کراتے ہوئے سابق وزیراعظم نے کہا کہ طارق شفیع کے بیان حلفی سے ظاہر ہوتا ہے کہ گلف اسٹیل قرض کی رقم سے بنائی گئی اور طارق شفیع کو اس کیس میں نہ تو ملزم نامزد کیا گیا ہے نہ ہی گواہ۔

نوازشریف نے عدالت کو بتایا کہ گلف اسٹیل کے 25فیصد حصص کی فروخت کے معاہدے سے متعلق ایم ایل اے ( باہمی قانونی معاونت) کو عدالت میں پیش نہیں کیا گیا،1980کے معاہدے پر شہباز شریف اور طارق شفیع کی طرف سے دستخطوں سے انکار سے متعلق میں کچھ نہیں کہہ سکتا البتہ میری موجودگی میں ان دونوں نے دستخطوں سے انکار نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ طارق شفیع کی طرف سے پیش کی گئی ٹرانزیکشن سے متعلق بیان حلفی کا میں عینی شاہد نہیں ہوں۔

حدیبیہ پیپر ملز سے متعلق انہوں نے بتایا کہ میرے والد نے حسین اور مریم نواز کو حدیبیہ پیپر ملز کا ڈائریکٹر  اور حسن نواز کو شیئرہولڈر نامزد کیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے سپریم کورٹ میں کبھی تسلیم نہیں کیا کہ لندن فلیٹس کا حقیقی یا بینیفشل مالک ہوں۔

ان کا کہنا تھا کہ گلف اسٹیل مل کا قیام ، سرمایہ ، آپریشن، قرض کا حصول اور شئیر کی فروخت سنی سنائی باتیں ہیں میں تو گلف اسٹیل ملز کے قیام میں کبھی شامل نہیں رہا۔

انہوں اپنے بیان میں کہا یہ ایک حقیقت ہے کہ 12اکتوبر1999 کو مجھے حراست میں لے لیا گیا اور بعد میں سعودی عرب بھجوادیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ نیب کی جانب سے طلبی کے نوٹس کا علم ٹی وی چینلز کے ذریعے ہوا اس بات کا کوئی ثبوت بھی نہیں کے جاتی امرا پر موجود میرے سکیورٹی افسر نے طلبی کا نوٹس وصول کیا ہو۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ نیب کا نوٹس آنکھ میں دھول جھونکنے کے مترادف تھا لیکن میں اپنے وکیل کو جواب دینے کی ہدایات کیں۔


متعلقہ خبریں