فیض آباد دھرنا کیس: وزارت دفاع کی رپورٹ درخواست گزار کو فراہم کرنے کا حکم


اسلام آباد: فیض آباد دھرنے کے قائدین  سے معاہدے میں آرمی چیف کا نام شامل کرنے کے معاملے پراسلام آباد ہائی کورٹ میں کیس کی سماعت ہوئی، ڈپٹی اٹارنی جنرل راجہ خالد عدالت میں پیش ہوئے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کی درخواست کی سماعت کی، درخواست گزار نے  وزرات دفاع  کی رپورٹ عام  کرنے کی استدعا کرتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ لاہورماڈل ٹاؤن کے متاثرین کو کمیشن رپورٹ فراہم کی جا سکتی ہے تو فیض آباد دھرنے کے متاثرین کو معاہدہ رپورٹ کیوں نہیں دی جا سکتی۔

عدالت نے فیض آباد دھرنے سے متعلق وزارت دفاع  کی انکوائری کمیٹی کی رپورٹ کی سربمہر کاپی درخواست گزار کو فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے کیس نمٹا دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے 17 نومبر 2017 کو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے خلاف تحریک لبیک پاکستان کے فیض آباد دھرنے کو ختم کرانے کا حکم دیا تھا  جس پر عمل کرتے ہوئے اسلام آباد انتظامیہ نے 25 نومبر 2017 کو پولیس آپریشن کیا،  دن بھر فیض آباد میدان جنگ بنا رہا لیکن دھرنا ختم نہ کرایا جا سکا، آپریشن میں ناکامی کے بعد حکومت نے گھٹنے ٹیک دیے اور 27 نومبر کو وزیرقانون نے استعفیٰ دے دیا۔  تحریک لبیک پاکستان اور حکومت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا  جس میں آرمی چیف اور ان کے نمائندوں کی کوششوں کی تعریف کی گئی۔

جسٹس شوکت صدیقی نے کیس کی سماعت کے دوران سیکرٹری دفاع کو حکم دیا تھا کہ وہ عدالت کو تحریری جواب میں یہ بتائیں کہ فیض آباد دھرنے کے شرکا اور حکومت کے درمیان طے پانے والے معاہدے میں آرمی چیف کا نام کیسے استعمال ہوا۔


متعلقہ خبریں