معاشرے کی اقدار خراب ہو چکی، ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں، چیف جسٹس

معاشرے کے اقدار خراب ہو چکی، ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں، چیف جسٹس

فوٹو: فائل


اسلام آباد: چیف جسٹس ہائیکورٹ نے کہا ہے کہ معاشرے کی اقدار خراب ہو چکی ہیں جس کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیکا آرڈیننس سے متعلق کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئندہ سماعت پر حتمی دلائل دیں۔ ایڈیشنل اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کس تاریخ کو یہ آرڈینس جاری ہوا ؟ کیا آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے کسی ہاؤس کے سامنے پیش کیا گیا ہے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ آرڈینس 18 فروری کو جاری ہوا اور آفیشل گزٹ میں 19 فروری کو آیا ہے۔ آرڈیننس ابھی تک پارلیمنٹ کے دونوں ہاؤسز کے سامنے پیش نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے کہا کہ یہ تو ایگزیکٹو کا اختیار نہیں ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے سامنے نہ رکھے اور آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہ کرنے سے یہ تاثر مل رہا ہے کہ ایگزیکٹو کی بدنیتی شامل ہے۔ قومی اسمبلی یا سینیٹ کسی بھی وقت آرڈیننس کو مسترد کر سکتے ہیں۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کرنے کی ایک ٹائم لائن ہے اس دوران ہی رکھا جانا ہے اور جب تک رولز موجود ہیں تو ایگزیکٹو نے انہیں کو اختیار کرنا ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ نے ریمارکس دیئے کہ آئین پابند بناتا ہے کہ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کیا جائے گا اور اگر آج آرڈیننس پارلیمنٹ میں پیش نہیں ہوتا تو کیوں نہ عدالت ایگزیکٹو کی بدنیتی قرار دے۔ آرڈیننس کو پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش کرنا ہوتا ہے اور ایگزیکٹو یہ نہیں کر سکتی کہ جس ایوان میں اکثریت ہو وہاں پیش کر دیں۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اگر ایگزیکٹو نے اپنے فرض کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کے نتائج کیا ہوں گے؟ کیا ایگزیکٹو پارلیمنٹ کو آرڈیننس منظور یا مسترد کرنے کے اختیار سے روک سکتا ہے؟ آئین کہتا ہے آرڈیننس جاری ہونے کے بعد پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے سامنے پیش ہو گا اور پارلیمنٹ سپریم ہے وہ آرڈیننس کو مسترد کر سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ایگزیکٹو جان بوجھ کر اپنے فرض کو پورا نہیں کر رہی تو اس کے نتائج کیا ہوں گے اور ایگزیکٹو کے پاس آئین کی خلاف ورزی کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ آئین کہتا ہے آرڈیننس پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں میں پیش کیا جائے گا اور اگر پارلیمنٹ کا کوئی بھی ایوان آرڈیننس کو مسترد نہیں کرتا تو پھر وہ بل کے طور پر پیش کیا جائے گا۔ ایگزیکٹو پارلیمنٹ کو آرڈیننس کا جائزہ لینے کے حق سے محروم رکھ رہی ہے اور اگر پارلیمنٹ کا ایک ایوان آرڈیننس کو مسترد کر دیتا ہے تو وہ ختم ہو جائے گا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ موجودہ صورتحال میں پیکا آرڈیننس کا معاملہ پس پشت ڈال دیا گیا ہے اور ہو سکتا ہے کہ حکومت اس آرڈیننس کو ہی واپس لے لے کیونکہ کسی درخواست میں بھی پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کو چیلنج نہیں کیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ عدالت تو اس کیس کو پس پشت نہیں ڈال سکتی اور ایسی درخواست موجود ہے جس میں پیکا ایکٹ کی دفعات کو بھی چیلنج کیا گیا۔ سیکشن 20 میں گرفتاری کا اختیار کیسے دیا جا سکتا ہے؟ اور کیوں نہ عدالت پیکا ایکٹ کی سیکشن 20 کو کالعدم قرار دے۔

انہوں نے کہا کہ اس عدالت نے کبھی نہیں کہا کہ کوئی تہمت لگائے لیکن اس کا الگ قانون موجود ہے اور ایک صحافی نے کتاب کا حوالہ دیا جو پبلش ہو چکی، وہ غلط کیسے ہو گیا جو ایف آئی اے نے نوٹس بھیجا ؟

یہ بھی پڑھیں: میرا جینا مرناپارٹی کے ساتھ ہے،عہدہ آنی جانی چیز ہے،عثمان بزدار

ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے مؤقف اختیار کیا کہ پیکا کا سیکشن 20 قابل ضمانت ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر قابل ضمانت ہے تو پھر محسن بیگ کو کس طرح گرفتار کر رہے تھے۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل طیب شاہ نے مؤقف اختیار کیا کہ محسن بیگ کو اس مقدمہ میں گرفتار نہیں کیا گیا۔

جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ محسن بیگ کو گرفتار کرنے گئے تھے اسی لیے وہ وقوعہ بنا۔ ڈپٹی اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس ایف آئی آر میں مزید ناقابل ضمانت دفعات بھی موجود تھیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ دیگر جو دفعات لگائی گئی تھیں وہ بالکل درست نہیں تھیں جبکہ خود کو اور شکایت کنندہ (مراد سعید) کو شرمندہ نہ کریں۔ کیا شکایت کنندہ (مراد سعید) کی شکایت لاہور میں موصول ہوئی تھی؟ اور اگر درخواست موصول ہوئی تو کس سورس کے ذریعے ہوئی، کیا ٹی سی ایس سے ہوئی ؟ کیا ایف آئی اے صرف حکومت کی خدمت کیلئے ہے؟

انہوں نے کہا کہ ایف آئی اے عوام کی خدمت کے لیے موجود ہے اور جن درخواستوں پر ایف آئی اے نے کارروائی کی زیادہ تر پبلک آفس ہولڈرز کی ہیں۔ ایف آئی اے نے کارروئی صحافیوں، اختلاف رائے اور تنقیدی آوازیں دبانے کے لیے کی جبکہ ایف آئی اے نے اپنے اختیارات کا بہت غلط استعمال کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے معاشرے کی اقدار بہت خراب ہو چکی ہیں، کیا سب کو جیل بھیج دیں ؟ معاشرے کی ان اقدار کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اگر کوئی سچی گواہی نہیں دیتا تو پراسیکیوٹر کو کسی کو بھی سزا دینے کی اجازت دے دی جائے جبکہ کیا 5 سال بعد کوئی اور حکومت آ جائے گی تو ایف آئی اے پھر بھی یہی کرے گی؟ حکومت نے آرڈیننس میں سیکشن 20 ناقابل ضمانت بنا دیا ہے؟ ناقابل ضمانت بنایا گیا تا کہ اسکے مزید خطرناک نتائج سامنے آ سکیں؟ اور کیا نیچرل پرسن کی تعریف بھی تبدیل کر دی گئی ہے؟

انہوں نے کہا کہ آپ نے اداروں اور کمپنیوں کو بھی اس میں شامل کر دیا ہے اور کل پی ٹی سی ایل پر کوئی تنقید کرتا ہے تو ایف آئی اے اس پر بھی کارروائی کرے گی۔ کل کوئی ڈیفالٹر کمپنی شکایت کرتی ہے تو ایف آئی اے کارروائی کرے گی۔ دنیا کی ایک مثال دے دیں جہاں اداروں کی ساکھ کا اس طرح تحفظ کیا جاتا ہو اور اگر کوئی ایف آئی اے پر تنقید کرے تو ایف آئی اے خود ہی اسے گرفتار کر لے گا؟

عدالت نے پیکا آرڈیننس سے متعلق سماعت 4 اپریل تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں