ناسا نے ایک اور بڑی کامیابی حاصل کر لی، 1990 میں لانچ کی گئی ہبل دوربین نے سورج سے بھی 50 گنا بڑا ستارہ دریافت کرلیا۔
ماہرین فلکیات کے مطابق ستارہ ”ائیرنڈل” دوربین کو اب تک نظر آنے والا سب سے فاصلے پر واقع ہے۔ جس کی روشنی کو پہنچنے میں بارہ اعشاریہ 9 ارب سال لگے۔
دوربینیں اتنے فاصلے پر صرف لاکھوں ستاروں پر مشتمل کہکشاؤں کی نشاندہی کر سکتی ہیں مگر ہبل نے ستارے کی الگ سے تصویر لینے کے لیے جدید طریقے کو اپنایا۔
یہ بھی پڑھیں: ناسا نے کھربوں میل دور ستارے کی تصویر لے لی
بی بی سی اردو کے مطابق اس سے پہلے سب سے زیادہ دوری کا ریکارڈ بنانے والے ستارے کا نام آئکارس تھا۔ اس کی تصویر بھی ہبل نے کھینچی تھی۔ اس سے نکلنے والی روشنی کو ہم تک پہنچنے میں 9 ارب سال لگے تھے۔
ائیرنڈل قدیم انگریزی کا لفظ ہے جس کے معنی ’ستارۂ سحری‘ یا ’طلوع ہوتی روشنی‘ کے ہیں، ہبل سے لی گئی تصویر میں ایک نقطے سے زیادہ کچھ نظر نہیں آ رہا۔
Twinkle, twinkle farthest star ⭐@NASAHubble just smashed records by observing the farthest individual star ever seen. Its light took 12.9 billion years to reach us—so we’re seeing how it looked when the universe was less than a billion years old!
More: https://t.co/vVRHSAOf1r pic.twitter.com/I4QDxL9vKb
— NASA (@NASA) March 30, 2022
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ ہمارے سورج سے کم سے کم 50 گنا زیادہ بڑا ہے مگر اس کا انحصار میگنیفیکیشن کی درست مقدار کے تعین پر ہے اور ہو سکتا ہے کہ یہ اس سے بھی کہیں بڑا ہو تاہم اگر اس کی جسامت 50 گنا بھی ہے تو اس کا شمار اب تک نظر آنے والے بڑے ستاروں میں ہو گا۔
سورج کی 50 گنا کمیت والا ستارہ بہت تھوڑے عرصے تک ہی جل سکتا ہے، شاید زیادہ سے زیادہ 10 لاکھ سال تک، جس کے بعد اس کا ایندھن ختم ہو جائے گا اور وہ مر جائے گا۔
یاد رہے جیمز ویب، ہبل کی جگہ لے رہی ہے۔ اسے گزشتہ دسمبر میں لانچ کیا گیا تھا۔ اس کا عدسہ زیادہ بڑا اور تجزیاتی آلات کہیں زیادہ برتر ہیں۔ یہ وہ تفصیلات حاصل کرنے میں کامیاب ہو گی جو ہبل کے بس سے باہر تھیں۔ جیمز ویب دو یا تین ماہ کے اندر سائنسی آپریشن شروع کر دے گی۔