ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم، اسمبلی بحال،تحریک عدم اعتماد پر پرسوں ووٹنگ ہو گی

سپریم کورٹ

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کو غیر آئینی قرار دیتے ہوئے اسمبلیاں بحال کر دیں۔ وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر 9 اپریل کو ووٹنگ کرانے کا حکم دے دیا،تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد قومی اسمبلی کا اجلاس نئے وزیراعظم کے انتخاب تک ملتوی نہیں کیا جائیگا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے متفقہ فیصلہ سنایا  اور 8صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا ۔

فیصلے میں کہا گیا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ آئین کے منافی ہے،تحریک عدم اعتماد زیرالتوا رہے گی،صدر ،وزیراعظم اور اسپیکر کے احکامات سپریم کورٹ کے فیصلے سے مشروط ہوں گے۔

فیصلے میں کہا گیا کہ قومی اسمبلی توڑنا بھی خلاف قانون تھا،قومی اسمبلی پرانی پوزیشن پر بحال ہوگی جبکہ وزیراعظم عمران خان اور وفاقی کابینہ بھی بحال رہے گی۔

عدالت نے قومی اسمبلی کا اجلاس غیر معینہ مدت تک ملتوی کرنا بھی غیرآئینی قرار دیتے ہوئے حکم دیا کہ 9اپریل کو دن ساڑھے 10 بجے قومی اسمبلی کا اجلاس بلایا جائے،قومی اسمبلی اجلاس میں ارکان عدم اعتماد پر ووٹ کا سٹ کرسکیں گے، تحریک عدم اعتماد منظور ہو جاتی ہے تو اسمبلی نئے وزیر اعظم کا انتخاب کرے۔

عدالت نے متقفہ فیصلے میں کہا کہ کسی ممبر کو ووٹ کاسٹ کرنے سے روکا نہیں جائے گا، تحریک عدم اعتماد ناکام ہو تو حکومت اپنے امور انجام دیتی رہے۔

عدالت عظمیٰ نے نگران حکومت کے قیام کیلئے تمام اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا، آرٹیکل 63 کے نفاذپر عدالتی فیصلہ اثر انداز نہیں ہوگا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ ہمارا فیصلہ متفقہ رائے سے ہے،تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کریں گے، الیکشن کمیشن اپنے آئینی فرائض سرانجام دیتا رہے۔

اس سے پہلے سپریم کورٹ میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں  جسٹس منیب اختر، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال مندوخیل نے کیس کی سماعت کی تھی، چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا تھا کہ نظر آرہا ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہے۔

سماعت شروع ہونے پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب احمد اویس نے کہا کہ آئین کو پس پشت ڈال دیا گیا ہے، پنجاب کی بیوروکریسی کو بھی رات کو طلب کیا گیا، سابق گورنر پنجاب آج باغ جناح میں حلف لے رہے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں تحریری جواب جمع کرائیں، اس معاملے میں مداخلت نہیں کرتے۔ لاہور ہائیکورٹ پنجاب کا معاملہ دیکھے گی، ہم صرف قومی اسمبلی کا معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ خود فریقین آپس میں بیٹھ کر معاملہ حل کریں۔

ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ ایک ڈکٹیٹر نے کہا تھا آئین 10 بارہ صفحے کی کتاب ہے کسی بھی وقت پھاڑ سکتا ہوں، چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ تقریر نہ کریں ہم پنجاب کے مسائل میں نہیں پڑنا چاہتے۔

یہ بھی پڑھیں:عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، شہباز شریف

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ٹی وی پر یہ بھی دکھایا گیا کہ پنجاب اسمبلی میں خاردار تاریں لگا دیں معاملات کو کہاں لے کر جا رہے ہیں؟ وکیل اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران اسمبلی کہاں جائیں جب اسمبلی کو تالے لگا دیئے گئے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے کہا کہ گزشتہ رات حمزہ شہباز کو نجی ہوٹل میں وزیراعلی ٰبنا دیا گیا۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ ہم یہاں آئین کے تحفظ کے لیے بیٹھے ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ سابق گورنر آج حمزہ شہباز سے باغ جناح میں حلف لیں گے،حمزہ شہباز نے بیوروکریٹس کی میٹنگ بھی آج بلا لی ہے، آئین ان لوگوں کیلئے انتہائی معمولی سی بات ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پنجاب کے حوالے سے کوئی حکم نہیں دیں گے، پنجاب کا معاملہ ہائیکورٹ میں لیکر جائیں، قومی اسمبلی کے کیس سے توجہ نہیں ہٹانا چاہتے۔

جس کے بعد چیف جسٹس نے اعظم نذیر تارڑ اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو روسٹرم سے ہٹا دیا۔ صدر مملکت عارف علوی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل شروع کیے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا یہ تحریک عدم اعتماد کا معاملہ عوام کو متاثر نہیں کر رہا؟جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کیا غیر آئینی کام ہوتا رہے اسے تحفظ حاصل ہے؟ کیا ہم یہاں بیٹھ کر غیر آئینی کام ہونے دیں؟ سپریم کورٹ آئین کی محافظ ہے۔

فواد چودھری کاتحریک عدم اعتماد اورڈپٹی اسپیکر کی رولنگ پر جوڈیشل کمیشن بنانے کا مطالبہ

وکیل علی ظفر نے کہا کہ پارلیمینٹرینز پارلیمنٹ کے گارڈین ہیں، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا وزیراعظم پوری قوم کے نمائندے نہیں ہیں؟ وکیل صدر مملکت نے کہا کہ وزیراعظم بلاشبہ عوام کے نمائندے ہیں۔

جسٹس مظہر عالم میاں خیل نے کہا کہ کیا پارلیمنٹ میں آئین کی خلاف ورزی ہوتی رہے اسے تحفظ ہوگا؟جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کارروائی سے کوئی متاثر ہو تو دادرسی کیسے ہوگی؟ کیا دادرسی نہ ہو تو عدالت خاموش بیٹھی رہے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ آئین کا تحفظ بھی آئین کے مطابق ہی ہو سکتا ہے، پارلیمان ناکام ہو جائے تو معاملہ عوام کے پاس ہی جاتا ہے، آئین کے تحفظ کیلئے اس کے ہر آرٹیکل کو مدنظر رکھنا ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اگر زیادتی کسی ایک ممبر کے بجائے پورے ایوان سے ہو تو کیا ہوگا؟

وکیل نے کہا کہ اگر ججز کے آپس میں اختلاف ہو تو کیا پارلیمنٹ مداخلت کر سکتی ہے؟ جیسے پارلیمنٹ مداخلت نہیں کرسکتی ویسے عدلیہ بھی نہیں کرسکتی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا وفاقی حکومت کی تشکیل کا عمل پارلیمان کا اندرونی معاملہ ہے؟ آپ یہ کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہوجائے ایوان کی کارروائی چیلنج نہیں ہوسکتی؟ جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ اگر کسی کے پاس داد رسی موجود نہیں ہے تو وہ کیا کرے؟

وکیل علی ظفر نے کہا کہ اگر ایسا کوئی حکم آیا تو پارلیمنٹ کو بہت کچھ برداشت کرنا پڑے گا، چیف جسٹس نے پوچھا کہ نئی حکومت اور وزیر اعظم کا انتخاب کیا پارلیمنٹ کے اندر کا معاملہ ہے؟ تحریک عدم اعتماد کو ہونے دیا جاتا تو حل نکل آتا کہ کون وزیر اعظم ہوگا؟ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آپکے مطابق پارلیمنٹ کے نمائندگان عدالتوں سے ریلیف نہیں لے سکتے، آپ کہہ رہے کہ ہیں پارلیمنٹ کی کارروائی سے متاثرہ لوگ اپنے حلقوں میں جائیں۔

یہ بھی پڑھیں:اسپیکر پنجاب اسمبلی کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع

وکیل نے جواب دیا کہ حکومت کی تشکیل اور اسمبلی کی تحلیل کا عدالت جائزہ لے سکتی ہے، وزیراعظم کے الیکشن اور عدم اعتماد دونوں کا جائزہ عدالت نہیں لے سکتی۔

صدر مملکت کے وکیل علی ظفر نے جونیجو کیس فیصلہ کا حوالہ دیا، انہوں نے کہا کہ محمد خان جونیجو کی حکومت کو ختم کیا گیا، عدالت نے جونیجو کی حکومت کے خاتمہ کو غیر آینی قرار دیا، عدالت اسمبلی نے خاتمہ کے بعد اقدامات کو نہیں چھیڑا، جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ہمارے سامنے معاملہ عدم اعتماد کا ہے۔ عدم اعتماد کے بعد رولنگ آئی، اس ایشو کو ایڈریس کریں ۔

وکیل نے کہا کہ یہاں بھی اسمبلی تحلیل کرکے الیکشن کا اعلان کر دیا گیا ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ الیکشن کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ حکومتی اقدام بدنیتی نہیں تھا، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اسمبلی کی اکثریت تحلیل نہ چاہے تو کیا وزیراعظم صدر کو سفارش کر سکتے ہیں؟ جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ منحرف اراکین کے باوجود تحریک انصاف اکثریت جماعت ہے، اگر اکثریتی جماعت سسٹم سے آئوٹ ہو جائے تو کیا ہوگا؟ وکیل نے کہا کہ سیاسی معاملے کا جواب بطور صدر کے وکیل نہیں دے سکتا۔

چیف جسٹس بندیال نے کہا کہ بظاہر آرٹیکل 95 کی خلاف ورزی ہوئی، اگر کسی دوسرے کے پاس اکثریت ہے تو حکومت الیکشن اناونس کردیں، الیکشن کرانے پر قوم کے اربوں روپے خرچ ہوتے ہیں، ہر بار الیکشن سے قوم کا اربوں کا نقصان ہوگا،عدالت نے قومی مفاد کو دیکھنا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیوں نہیں بتاتے کہ کیا آئینی بحران ہے؟ سب کچھ آئین کے مطابق ہو رہا ہے تو آئینی بحران کہاں ہے؟ ملک میں کہیں اور بحران ہو سکتا ہے۔
بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میری بھی یہی گزارش ہے کہ ملک میں کوئی آئینی بحران نہیں۔

عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے،اسلام آباد ہائیکورٹ

صدر کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل مکمل کر لیے، وزیراعظم کے وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کیے۔ وکیل امتیاز صدیقی نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ماضی میں بھی پارلیمان کی کاروائی میں مداخلت نہیں کی، عدالت کے سامنے معاملہ ہاوس کی کاروائی کا ہے، ایوان کی کاروائی عدلیہ کے اختیار سے باہر ہے،عدالت پارلیمان کو اپنا گند خود صاف کرنے کا کہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں سپریم کورٹ اپنے فیصلوں میں کہہ چکی ہے کہ پارلیمنٹ کے امور میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ وکیل امتیاز صدیقی نے جواب دیا کہ سپریم کورٹ نے یہی کیا ۔

چیف جسٹس نے کہا کہ درخواست گزار کہتے ہیں تحریک پیش ہونے کے بعد رولنگ نہیں اسکتی۔ ایوان میں تحریک پیش ہونے سے پہلے اسپیکر رولنگ دے سکتا ہے، اس پر عدالت کی معاونت کریں۔

وکیل نے کہا کہ اپوزیشن نے ڈپٹی سپیکر کی صدارت پر اعتراض نہیں کیا تھا، ڈپٹی سپیکر نے اپنے ذہن کے مطابق جو بہتر سمجھا وہ فیصلہ کیا، پارلیمان کے اجلاس میں ڈپٹی سپیکر نے جو فیصلہ دیا اس پر وہ عدالت کو جوابدہ نہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ قانون یہی ہے کہ پارلیمانی کارروائی کے استحقاق کا فیصلہ عدالت کرے گی، عدالت جائزہ لے گی کہ کس حد تک کارروائی کو استحقاق حاصل ہے۔

آرٹیل 69 کو ارٹیکل 127 سے ملاکر پڑھیں تو پارلیمانی کارروئی کومکمل تحفظ حاصل ہے۔ سپریم کورٹ آرٹیکل 69 کے تحت پارلیمنٹ کی کاروائی میں مداخلت نہیں کر سکتی، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ جن فیصلوں کا حوالہ دیا گیا سپریم کورٹ ان پر عمل کرنے کی پابند نہیں۔ وکیل امتیاز نے کہا کہ معذرت کےساتھ مائی لارڈ،پانچ رکنی بنچ سات رکنی بنچ کے فیصلے کا پابند ہے۔

امتیاز صدیقی نے کہا کہ اسپیکر کو اگر معلوم ہو کہ بیرونی فنڈنگ ہوئی یا ملکی سالمیت کو خطرہ ہے تو وہ قانون سے ہٹ کر بھی ملک کو بچائے گا، اسپیکر نے اپنے حلف کے مطابق بہتر فیصلہ کیا، اسپیکر کا فیصلہ پارلیمنٹ کا اندرونی معاملہ ہے۔ اس سارے معاملے میں وزیر اعظم نے ایک لفظ نہیں کہا۔ اس نے صرف اس صورتحال میں بھتر سمجھا کہ وہ حکومت ختم کرکے عوام میں جائیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ ڈپٹی اسپیکر نے جو رولنگ دی اس کی نیت درست تھی؟ آپ کے مطابق وہ رولنگ مواد کی بنیاد پر دی گئی۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ کیا ڈپٹی اسپیکر کے سامنے قومی سلامتی کمیٹی کے منٹس کب رکھے گئے؟

وکیل امتیاز صدیقی نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کے معاملے پر مجھے نہیں معلوم، چیف جسٹس نے کہا کہ جو آپ کو نہیں معلوم اس پر بات نا کریں، آپ کے مطابق ڈپٹی اسپیکر کے پاس ووٹنگ کے دن مواد موجود تھا جس پر رولنگ دی، وزیراعظم نے آرٹیکل 58 کی حدود کو توڑا اس کے کیا نتائج ہوں گے؟ ڈپٹی اسپیکر کو 28 مارچ کو ووٹنگ پر کوئی مسئلہ نہیں تھا، ووٹنگ کے دن رولنگ آئی۔

امتیاز صدیقی کے دلائل مکمل ہونے کے اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے دلائل کا آغاز کر دیا۔

نعیم بخاری نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ سوال ہوا تھا کہ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد میں نہیں لیا جا سکتا ہے؟ پوائنٹ آف آرڈر تحریک عدم اعتماد سمیت ہر موقع پر لیا جا سکتا ہے۔میں علی ظفر کے دلائل اپناتے ہوئے اپنے بھی مزید دلائل دونگا۔

جسٹس جمال مندو خیل ہم آپ کے دلائل کا انتظار کرہے ہیں.

نعیم بخاری نے کہا کہ ماضی میں عدالت عالیہ نے کیا کیا یہ سوال ہے۔ ایک حکومت کے حوالے سے سپریم، کورٹ کا فیصلہ موجود ہے۔ جس کے بعد عدالت نے الیکشن کرانے کی تجویز دی۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ کیا پوائنٹ آف آرڈر پر عدم اعتماد کی تحریک کو ختم کئے جانے کی کوئی مثال موجود ہے۔ نعیم بخاری نے کہا کہ ایسی مثال تو نہیں لیکن پوائنٹ آف ارڈر پر کوئی بھی قرارداد ختم کی جاسکتی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا سپیکر کا عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانا آئین کی خلاف ورزی ہے؟ نعیم بخاری نے جواب دیا کہ اگر سپیکر پوائنٹ آف آرڈر مسترد کر دیتا کیا عدالت تب بھی مداخلت کرتی؟

سولہ مارچ کو تمام ممبرز کو سرکیولر بھیجا گیا جس میں تحریک پیش کرنے کا زکر ہے، پھر اس دوران او آئی سی کا وزارتی اجلاس تھا، سینیٹ چیئرمین اور سی ڈی اے سے جگہ دینے کی بات کی گئی۔ سب نے جگہ نہ ہونے کے بارے میں آگاہ کیا جس کے بعد اسپیکر نے 25 مارچ کو اجلاس بلایا۔ نئے انتخابات کا اعلان ہوچکا، اب معاملے عوام کے پاس ہے، سپریم کورٹ کو اب یہ معاملہ نہیں دیکھنا چاہیئے.

تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی منظوری کا مطلب نہیں کہ مسترد نہیں ہو سکتی، عدالت بھی درخواستیں سماعت کیلئے منظور کرکے بعد میں خارج کرتی ہے.

جسٹس مظھر عالم میاں خیل نے پوچھا کہ کیا اسپیکر اب بھی اسپیکر ہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ جی اسپیکر آج بھی اسپیکر ہیں۔ 25 مارچ کو اجلاس بلایا گیا ، دوسرا اجلاس 28 مارچ کو بلایا گیا جس میں تحریک پیش کی گئی۔

جسٹس مندوخیل نے کہا کہ کیا جب تحریک پیش ہوجائے تو اسپیکر اس کو ختم کرسکتا ہے؟ پوائنٹ آف ارڈر کیا ہوتا ہے، ہم اس کو سمجھنا چاہتے ہیں۔

نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف ارڈر کی تشریح کیا ہے یہ نہیں بتا سکتا لیکن پوائیٹ آف ارڈر اجلاس میں بات کرنے کے لئے ہوتا ہے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ رولز کے مطابق ایوان میں اگر تحریک پیش کردی گئی ہے تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں اٹھایا جاسکتا۔

یہ بھی پڑھیں:  کسی کو ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت کا حق نہیں،شاہ محمود قریشی

نعیم بخاری نے جواب دیا کہ رولز لے مطابق تحریک پیش ہوجانے کے بعد نکتہ اعتراض لیا جاسکتا ہے۔ اسمبلی کارروائی شروع ہوتے ہی فواد چوہدری نے پوائنٹ آف آرڈر مانگ لیا، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ شروع ہوجاتی تو پوائنٹ آف آرڈر نہیں لیا جا سکتا تھا۔

جسٹس اعجازلااحسن نے کہا کہ موشن اور ریزولوشن میں کیا فرق ہے؟ وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ موشن اور تحریک کے الفاظ ایک ہی اصطلاح میں استعمال ہوتے ہیں، موشن اور تحریک دونوں آپس میں رشتہ دار ہے۔

جسٹس مندوخیل نے پوچھا کہ اسپیکر کے آئینی اختیار کو کوئی رول ختم کرسکتا ہے ؟ اگر کوئی سمجھتا ہے کہ اسپیکر کا کوئی عمل غیر آئینی ہے تو پھر کیا کیا جائے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ آئین کئی معاملات میں خاموش ہے لیکن ایسے معاملات میں رولز موجود ہیں، پارلیمان کے کئی معاملات رولز کے مطابق چلائے جاتے ہیں۔

اسپیکر اور ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی کے منٹس عدالت میں پیش کردیئے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے سماعت کے دوران سوال کیے کہ آرٹیکل 95 کا آئینی مینڈیٹ ہے، کیا ڈپٹی اسپیکر آئینی مینڈیٹ سے انحراف کر سکتا ہے، کیا ایجنڈے میں تحریک عدم اعتماد ہونے کا مطلب ووٹنگ کیلئے پیش ہونا نہیں؟ تحریک عدم اعتماد کے علاوہ پارلیمان کی کسی کارروائی کا طریقہ آئین میں درج نہیں، کیا اسمبلی رولز کا سہارا لیکر آئینی عمل کو روکا جا سکتا ہے؟ کیا سپیکر آئینی عمل سے انحراف کر سکتا ہے؟ کیا آئینی عمل سے انحراف پر کوئی کارروائی ہو سکتی ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ ریکارڈ کے مطابق نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اجلاس میں گیارہ افراد شریک تھے، جسٹس اعجازلاحسن نے پوچھا کہ اس کمیٹی کو بریفنگ کس نے دے تھی؟

نعیم بخاری نے بتایا کہ اس کمیٹی میں شرکت کے 29 لوگوں کو نوٹس دیئے گئے تھے۔جسٹس مندو خیل نے پوچھا کہ کیا اس کمیٹی کی میٹنگ میں وزیر خارجہ تھے؟ نعیم بخاری نے کہا جی موجود تھے۔ شرکا کی لسٹ میں تیسرا نمبر ہے۔

نعیم بخاری نے کہا کہ مجھے ہدایات ہیں کہ نیشنل سیکیورٹی کاونسل کے منٹس سر بمہر لفافے میں عدالت میں پیش کروں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ وزیر خارجہ کے دستخط میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہے، کیا وزیر خارجہ کو اجلاس میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟
نعیم بخاری نے کہا کہ وزیر خارجہ کو پارلیمانی کمیٹی اجلاس میں ہونا چائیے تھا، چیف جسٹس نے کہا کہ معید یوسف کا نام بھی میٹنگ منٹس میں نظر نہیں آ رہا۔

نعیم بخاری نے بتایا کہک اس دن وزیر خارجہ چین کے دورے پر تھے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ میں کاونٹ کیا ہے کہ پارلیمنینٹری کمیٹی برائے سیکورٹی کے اجلاس میں 57 افراد موجود تھے ، اس اجلاسں میں شرکت کرنے والوں کے نام سامنے آئے ہیں لیکن جنہوں نے بریفنگ دی ان کے نام سامنے نہیں آئے۔ کیا اس پر اپوزیشن سے پوچھا نہیں جاسکتا تھا؟

نعیم بخاری نے فواد چوہدری کا پوائنٹ آف آرڈر بھی عدالت میں پیش کر دیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اراکین اسمبلی کے نوٹس میں خط کے مندرجات آ گئے تھے، پوائنٹ آف آرڈر پر رولنگ کی بجائے اپوزیشن سے جواب نہیں لینا چاہیے تھا؟ نعیم بخاری نے کہا کہ پوائنٹ آف آرڈر پر بحث نہیں ہوتی۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ پارلیمنٹ کی کاروائی بڑی مشکل سے 2 یا تین منٹ کی تھی، چیب جسٹس نے کہا کہ کیا پوائنٹ آف ارڈر پر اپوزیشن کو موقع نہیں ملنا چاہیے تھا، جسٹس جمال خان نے کہا کہ رولنگ ڈپٹی اسپیکر نے دی، رولنگ پر دستخط اسپیکر کے ہے، رولنگ پر ڈپٹی اسپیکر کے دستخط کدھر ہے؟ پارلیمانی کمیٹی میٹنگ منٹس میں ڈپٹی سپیکر کی موجودگی ظاہر نہیں ہوتی۔ کیا ڈپٹی اسپیکر اجلاس میں موجود تھے ؟

نعیم بخاری نے کہا کہ جو دستاویز پیش کی ہے وہ شاید اصلی والی نہیں ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ تین اپریل کے قومی اسیمبلی کے اجلاس میں وزیر قانون نے نکتہ اعتراض پرعدم اعتماد کی تحریک کو آرٹیکل 5 کی خلاف ورزی قرار دیا، جس کے بعد اس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ عدم اعتماد کی تحریک کو آرٹیکل پانچ کی خلاف ورزی قرار دیا۔
نعیم بخاری نے کہا کہ یہ عدالت پارلیمنٹ کی کاروائی کا جائزہ نہیں لے سکتی۔

جسٹس مظھر عالم نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی جانب سے رولنگ پڑھی تھی اس رولنگ پر اسپیکر کے دستخط ہیں۔ کیا بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ وہ رولنگ ان کو پہلے سے لکھ کر دی گئی تھی کہ وہ پڑھیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ممکن ہے کچھ ارکان سپیکر کی رولنگ سے مطمئن ہوتے کچھ نہ ہوتے، تحریک عدم اعتماد پر ووٹنگ آئین کا تقاضا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کیسے کہہ رہے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو سپیکر کے سامنے چیلنج کیا جاسکتا ہے، آپ کے مطابق اراکین کو ڈپٹی سپیکر کیخلاف سپیکر کے پاس جانا چاہیے تھا،لیکن آسمان اس وقت گرا جب اسمبلی تحلیل کر دی گئی۔

جسٹس مظہر عالم نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ کے اختتام سے پہلے اسپیکر اسد قیصر کا نام پڑھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ فواد چودھری نے عدم اعتماد کی آئینی حیثیت پر رولنگ مانگی، ایوان میں عوام کے منتخب ارکان موجود تھے، ڈپٹی اسپیکر نے ان کے خلاف رولنگ دیدی، کیا عوامی نمائندوں کی مرضی کیخلاف رولنگ دینا پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں؟

نعیم بخاری نے کہا کہ پارلیمان کے اندر جو بھی ہو اسے آئینی تحفظ حاصل ہوگا، جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا ڈپٹی سپیکر کی رولنگ میں اٹھائے گئے نکات پارلیمانی کارروائی سے باہر نہیں تھے؟ نعیم بخاری نے کہا کہ حتمی فیصلہ عدالت کا ہوگا، ہمارا موقف ہے کہ رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا، جسٹس اعجاز الااحسن نے کہا کہ اگر اسمبلی تحلیل نہ ہوتی تو متاثرہ ارکان کے پاس داد رسی کا طریقہ کا کیا تھا، جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا ارکان نئی عدم اعتماد لاسکتے تھے؟

یہ بھی پڑھیں: عمران خان ایبسلوٹلی فراڈ ہے، شہباز شریف

نعیم بخاری نے کہا کہ اسپیکر نے ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کی توثیق کی، چیف جسٹس نے کہا کہ رولز کے مطابق پوائنٹ آف آرڈر پر دوسری سائیڈ کو بات کرنے کا موقع دیا جا سکتا ہے، آپشن کے باوجود ہیرنگ Hearing کا موقع نہیں دیا گیا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ ایک سینیئر وکیل ہیں آپ سے پوچھنا چاھتا ہون کہ کیا آرٹیکل 95 انڈپینڈنٹ آرٹیکل نہیں ہے۔اس میں عدم اعتماد کی تحریک کے حوالے سے اسپیکر کے کردار کی وضاحت کی گئی ہے۔ اس صورت میں اگر کوئی غیر آئینی کام ہو جائے تو کیا عدالت اس پر مداخلت نہیں کرسکتی۔

نعیم بخاری نے کہا کہ عدالت کس حد تک مداخلت کرسکتی وہ عدالت نے طےکرنا ہے۔ عدالت اسمبلی تحلیل کا جائزہ لے سکتی ہے۔

اسپیکر، ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نعیم بخاری نے اپنے دلائل مکمل کیے، جس کے بعد اٹارنی جنرل نے دلائل شروع کرتے ہوئے تحریری معروضات عدالت میں پیش کردیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ اٹارنی جنرل صاحب کیا یہ آپکا آخری کیس ہے، اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر آپکی خواہش ہے تو مجھے منظور ہے، جسٹس جمال خان نے کہا کہ پوری بات تو سن لیں، ہم چاہتے ہیں آپ اگلے کیس میں بھی دلائل دیں۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ نیشنل سکیورٹی کمیٹی میٹنگ کی تفصیل کھلی عدالت میں نہیں دے سکوں گا، عدالت کسی کی وفاداری پر سوال اٹھائے بغیر بھی فیصلہ کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ سے مشروط ہوگا، حکمنامہ

اٹارنی جنرل نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی اجلاس میں انتہائی حساس نوعیت کے معاملات پر بریفننگ دی گئی، قومی سلامتی کمیٹی پر ان کیمرہ سماعت میں بریفنگ دینے پر تیار ہوں۔ وزیراعظم سب سے بڑے سٹیک ہولڈر ہیں اس لئے اسمبلی توڑنے کا اختیار بھی انہی کے پاس ہے، اسمبلی تحلیل کرنے کیلئے وزیراعظم کو وجوہات بتانا ضروری نہیں، صدر سفارش پر فیصلہ نہ کریں تو 48 گھنٹے بعد اسمبلی ازخود تحلیل ہوجائے گی۔ حکومت کی تشکیل ایوان میں کی جاتی ہے، آئین ارکان کی نہیں ایوان کی5 سالہ معیاد کی بات کرتا ہے، برطانیہ میں اسمبلی تحلیل کرنے کا وزیر اعظم کا آپشن ختم کردیا گیا ہے، ہمارے آئین میں وزیر اعظم کا اسمبلی تحلیل کرنے کا آپشن موجود ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ پارلیمانی کارروائی کو مکمل ایسا استثنی نہیں سمجھتا کہ کوئی آگ کی دیوار ہے، پارلیمانی کارروائی کا کس حد تک جائزہ لیا جا سکتا ہے عدالت فیصلہ کرے گی، اگر سپیکر کم ووٹ لینے والے کے وزیراعظم بننے کا اعلان کرے تو عدالت مداخلت کر سکتی ہے۔ پارلیمنٹ میں ہونے والی ہر کاروائی کا جائزہ نہیں لیا جاسکتا.

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ سپیکر ہاوس کا کسٹوڈین ہوتا ہے، سپیکر صرف اپنی ذاتی تسکین کیلئے عہدے پر نہیں بیٹھتا ہے۔ سپیکر ایسا تو نہیں کر سکتا کہ اپنی رائے دے باقی ممبران کو گڈ بائے کہہ دے۔  20 فیصد ممبران نے جب تحریک پیش کر دی تو بحث کرانا چاہئے تھی، وزیر اعظم کو سب پتا ہوتا ہے وہ جاتے ممبران سے پوچھتے وہ کیا چاہتے ہیں.

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اگر 68 ارکان تحریک منظور اور اس سے زیادہ مسترد کریں تو کیا ہوگا؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر 172 ارکان تحریک پیش کرنے کی منظوری دیں تو وزیراعظم فارغ ہوجائے گا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ووٹنگ ایک اسکیم کے تحت ہوتی ہے، وزیر اعظم کو اپنے ممبرز کی شناخت کرنا ضروری ہے تاکہ اس کو علم ہو کہ وہ کونسے 172 ممبرز ہیں جو اس کے ساتھ ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہم آئینی اشو پر بات کررہے ہیں اور ہمیں علم ہے کہ آئین ایک سیاسی دستاویز ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد پر لیو گوانٹ کرتے ہوئے کوئی بنیاد بتانا ہوتی ہے؟ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کی کوئی بنیاد بتانا ضروری نہیں، تحریک پیش کرتے وقت تمام 172 لوگ سامنے آ جائیں گے، تحریک پیش کرنے اور ووٹنگ میں تین سے سات دن کا فرق بغیر وجہ نہیں، سات دن میں وزیراعظم اپنے ناراض ارکان کو منا سکتا ہے۔

جسٹس مظھر عالم نے کہا کہ لیو گرانٹ ہوگئی تو پھر ووٹنگ ہونی ہے۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ میرا کیس یہ ہے کہ لیو گرانٹ ہوئی ہی نہیں۔ جسٹس مظھر عالم نے کہا کہ پھر اسپکر نے کیسے ووٹنگ کے لئے اجلاس بلالیا۔ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکر نے لیو گرانٹ کی ہی نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ فواد چوہدری 28 مارچ کو اعتراض کرتے تو کیا تحریک پیش کرنے سے پہلے مسترد ہوسکتی تھی؟

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش ہونے کے وقت بھی مسترد ہو سکتی تھی، تحریک عدم اعتماد قانونی طور پر پیش کرنے کی منظوری نہیں ہوئی۔

جسٹس مظہر عالم نے پوچھا کہ اسپیکر نے قرار دیدیا کہ تحریک منظور ہوگئی آپ کیسے چیلنج کر سکتے ہیں؟ اٹارنی جنرل نے کہا کہ اسپیکر کی رولنگ چیلنج نہیں ہوسکتی تو کیس ہی ختم ہو گیا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک پیش کرنے کے حق میں 161 لوگوں نے ووٹ کیا تھا، اگر 68 لوگ تحریک پیش کرنے کی منظوری اور 100 مخالفت کریں تو کیا ہوگا؟ ایوان کی مجموعی رکنیت کی اکثریت ہو تو ہی تحریک پیش کرنے کی منظوری ہوسکتی، آئین میں کہیں نہیں لکھا کہ اکثریت مخالفت کرے تو تحریک مسترد ہوگی، تحریک پیش کرنے کی منظوری کا ذکر اسمبلی رولز میں ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 55 کے مطابق اسمبلی میں تمام فیصلے ہاوس میں موجود اراکین کی اکثریت سے ہونگے، ووٹنگ کے لئے 172 ارکان ہونے چاہیے، لیو گرانٹ اسٹیج پر 172 ارکان کی ضرورت نہیں، آرٹیکل 55 کے تحت ایوان میں فیصلے اکثریت سے ہوتے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر لیو گرانٹ کے وقت 172 ارکان چاہیئے تو پھر تو بات ہی ختم ہو گئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تحریک منظور کرنے کی سپیکر نے رولنگ دیدی تو بات ختم ہوگئی، سپیکر کے وکیل نے کہا رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ سپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا جا سکتا تو کیس ختم ہوگیا، تین اپریل کو بھی وہی سپیکر تھا اور اسی کی رولنگ تھی
چیف جسٹس نے کہا کہ اسمبلی کی تحلیل اصل مسئلہ ہے اس پر آپکو سننا چاہتے ہیں، اٹارنی جنرل نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد نمٹانے کے بعد ہی اسمبلی تحلیل ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ دیکھنا ہے اسمبلی تحلیل اور سپیکر رولنگ میں کتنے ٹائم کا فرق ہے۔  میں دل کی گہرائیوں سے کہہ رہا ہوں کہ پارلیمنٹ پھلے پھولے اور کام کرے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ ملک میں کیا دنیا میں پہلی بار ہورہا ہے کہ اپوزیشن لیڈر وزیر اعظم بنے گا۔ جو ان کے ساتھ ہونگے کہ ان کو اچھا لگے گا یہ محسوس کرتے ہوئے کہ وہ اکثریت میں نہیں۔ اپوزیشن لیڈر کے بغیر بہت سے کام نہیں ہو سکتے جیسے عبوری حکومت کا قیام۔

چیف جسٹس نے کہا کہ تمام وکلا اپنے معروضات تیار کرلیں کہ کاروائی آگے کیسے بڑھائی جائے۔ ایک بات تو نظر آ رہی ہے رولنگ غلط ہے، دیکھنا ہے اب اس سے آگے کیا ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ میں رولنگ کا دفاع نہیں کر رہا، میراConern نئے انتخابات کا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا قومی مفاد کو بھی ہم نے دیکھنا ہے، جسٹس جمال نے کہا کہ عدالت نے حالات و نتائج کو دیکھ کر فیصلہ نہیں کرنا۔ عدالت نے آئین کو مد نظر رکھ کر فیصلہ کرنا ہے، کل کو کوئی اسپیکر آئے گا وہ اپنی مرضی کرے گا، عدالت نے نہیں دیکھنا کون آئے گا کون نہیں، نتائج میں نہیں جائینگے۔

اٹارنی جنرل نے دلائل میں کہا کہ عدالت نے برطرف ملازمین کی نظرثانی مسترد کرکے بھی بحالی کا راستہ نکالا۔عدالت نے سیکڈ ملازمین کیس میں جو فیصلہ دیا وہ ہم نے دیکھا ۔اس کیس میں عدالت نے نظر ثانی اپیلیں خارج کی تھیں، لیکن ملازمین کو نوکریوں پر بحال کیا گیا، ہم اس ملک کے مینڈیٹ کو کسی اور کی خواہش پر نہیں چھوڑ سکتے۔ آج عدالت جو حکومت بنائے گی کیا وہ دس بارہ لوگوں کے ساتھ ہو گی؟

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تو وہ بتائیں گے کہ انہوں نے کیا کرنا ہے، اس وقت ملک میں ڈالر 190 تک پہنچ گیا ہے، ہماری سٹاک مارکیٹ نیچے جارہی ہے، سری لنکا کے حالات ہمارے سامنے ہے، میں بطور شہری چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت مضبوط ہو۔ ہمیں مضبوط حکومت درکار ہے، اپوزیشن لیڈر کیلئے یہ بہت مشکل ٹاسک ہوگا۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر بھی موجود ہے، اپوزیشن سے تجاویز بھی لے لیں، موجودہ مینڈیٹ 2018 کی اسمبلی کا ہے، آج اگر کوئی حکومت بنائے گا تو کتنی مستحکم ہو گی۔

جس کے بعد عدالت نے لیڈر آف اپوزیشن شھباز شریف کو روسٹرم پر بلالیا۔

شہباز شریف نے سماعت کے دوران کہا کہ اسپیکرکے رولنگ پر عدالت نے فیصلہ کرنا ہے کہ وہ آئینی ہے یا غیر آئینی ، ہم عدالت کی عزت کرتے ہیں ججز پر ہمیں فخر ہے ، میری درخواست ہے کہ وقفے سے پہلے جو ریمارکس دیئے اس پر کہوں گا کہ پارلیمنٹ کو بحال کریں۔ پارلیمنٹ سپریم ہے۔ پارلیمنٹ خودمختار ہے۔

عام آدمی ہوں قانونی بات نہیں کروں گا، عدالت کے سامنے پیش ہونا میرے لئے اعزاز ہے، رولنگ ختم ہونے پر تحریک عدم اعتماد بحال ہو جائے گی، اسپیکر کی رولنگ کالعدم ہو تو اسمبلی کی تحلیل ازخود ختم ہوجائے گی۔

ہماری تاریخ میں آئین کئی مرتبہ پامال ہوا، جو بلنڈر ہوئے انکی توثیق اور سزا نہ دیے جانے کی وجہ سے یہ حال ہوا، عدالت اللہ اور پاکستان کے نام پر پارلیمنٹ کو بحال کرے، پارلیمنٹ کا عدم اعتماد پر ووٹ کرنے دیا جائے۔

ہمارا اتحاد ملک کے بہترین جماعتوں پر مشتمل ہے۔ ہم ملک کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ میں نے اپوزیشن لیڈر کا عہدہ سنبھالنے کے وقت میثاق معیشت کی بات اپنی تقریر میں کی تھی۔ ہمارے پاس ایک ایجنڈا ہے ، آپ یقین کریں ہم آگے بڑھیں گے۔ اس حکومت کے ایک اتحادی نے اپوزیشن کیمپ کو جوائن کیا، ہمارے پاس 177 ووٹ ہیں، ہم اپنے ائین کی حفاظت کرینگے اور پاکستانیوں کی خدمت کریںنگے۔

چیف جسٹس کا شہباز شریف سے سوال کیا کہ آپ نے 2018 میں کتنی سیٹیں حاصل تھیں؟ ہم نے 115 سیٹیں حاصل کیں تھیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم 184/3 کےتحت درخواستوں پر سماعت کررہے ہیں۔ عدالت نے آپ کا موقف سنا، سوال یہ ہے کہ آپ آگے کیسے چلیں گے۔ آپ کی حکومت پہلے پانچ سال حکومت کامیابی سے چلا چکی ہے۔جسٹس جمال مندو خیل نے کہا کہ آپ بطور اپوزیشن لیڈر پہلے دن سے الیکشن کی ڈیمانڈ کرتے رہے اب کیوں نہیں کررہے۔ جسٹس اعجازلاحسںن کا شہباز شریف نے سوال کیا کہ اگر عدم اعتماد کامیاب ہوجاتی ہے تو الیکشن میں جانے کے لئے آپ کو کتنا عرصہ لگے گا۔

حکومت 174 ووٹوں پر قائم تھی ہمارے ممبر 177 ہیں، آئین کی بحالی اور عوام کیلئے اپنا خون پسینہ بہائیں گے. چیف جسٹس نے کہا کہ 2013 کے الیکشن میں آپ کی کتنی نشستیں تھیں؟ گزشتہ انتخابات میں 150 سے زائد نشستیں تھیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اکثریت حاصل کرنے والی جماعت فائدے میں رہتی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرینگے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اپوزیشن پہلے دن سے الیکشن کرانا چاہتی تھی۔
شہباز شریف نے کہا کہ مسئلہ آئین توڑنے کا ہے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آئین کی مرمت ہم کر دینگے۔

ن لیگ کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ  اٹارنی جنرل نے بخشنے اور نہ بخشنے کا بیان عدالت میں دیا یہ ایک سیاسی بیان ہے ، 2002 سے ہم نے دیکھ کہ کسی سنگل پارٹی نے حکومت بنائی ہو جب بھی حکومت بنی اتحاد پر مشتمل تھی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں یہاں کہنا چاھہا ہوں کہ آپ پہلے مطالبہ کررہے تھے کہ الیکشن ہوں اب کیا ہوگیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ اپنی اپوزیشن سے ملکر انتخابی اصلاحات کرینگے تاکہ شفاف الیکشن ہو سکے، عام آدمی تباہ ہوگیا اس کیلئے ریلیف پیدا کرنے کی کوشش کرینگے۔

اٹارنی جنرل نے کہا کہ سب چاہتے ہیں اراکین اسمبلی کے نہیں عوام کے منتخب وزیراعظم بنیں، جنہوں نے عمران خان کو پلٹا ہے وہ شہباز شریف کو بخشیں گے،؟ اپوزیشن کا الیکشن کا مطالبہ پورا ہو رہا ہے تو ہونے دیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیں معلوم ہے، وکیل ن لیگ نے کہا کہ اٹارنی جنرل کی آخری باتیں دھمکی آمیز تھیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ کون کس کو نہیں چھوڑے گا، کس کو سرپرائز دے گا یہ نہیں کہنا چاہیے، وزیراعظم نے سرپرائز دینے کا اعلان کیا تھا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہمیشہ نئے الیکشن کا مطالبہ کرتے تھے آج کیوں نہیں مان رہے، سرپرائز پر اپنا فیصلہ واضح کر چکے ہیں۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ عدالت سیاسی تقاریر پر نہ جائے۔ سیاست روز تبدیل ہوتی ہے، منحرف ارکان کے علاوہ اپوزیشن کے پاس 177 ارکان ہے، چیف جسٹس کے کہنے پر مخدوم علی خان نے اپوزیشن ارکان کی پارٹی وائز تفصیلات بتائی۔ ہمیں علم ہے کہ ملکی اقتصادی صورتحال خراب ہے اس کا ذمہ دار کون ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اس صورتحال کی وجہ سے ملکی اقتصادی حالات خراب ہیں، ہم اس پر کسی کو مورد الزام نہیں ٹھراتے۔ وکیل ن لیگ نے کہا کہ اس وقت عدالت ریمیڈی دینے کی طرف سوچ رہی ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ اسٹاک مارکیٹ کریش کر گئی، ڈالر مہنگا اور روپے کی قدر کم ہو گئی، چیف جسٹس نے کہا کہ یہ تمام معاشی مسائل ہیں۔ مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ معاشی مسائل کس نے پیدا کیے پیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ مجھے نہیں لگتا ہم سوالات کے جواب دینے بیٹھے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آرٹیکل 184/3 میں کیس سن رہے ہیں، عوامی حقوق کا تحفظ کرینگے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ مجھے اندازہ تھا حکومت بلآخر انتخابات کی طرف جائے گی، جانتا تھا کہ سپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنا ممکن نہیں۔
مخدوم علی خان نے کہا کہ حاجی سیف اللہ کیس امتیازی کیس ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ رولنگ ختم ہو اسمبلی بحال نہ ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اس نقطہ پر لگتا ہے تیاری کرکے آئے ہیں، وکیل نے کہا کہ مجھے پتہ تھا یہ اس طرف آئیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آئین سے 58(2B) جمہوری انداز میں نکالا گیا تھا۔عدالتی کارروائی مکمل،اب ہم معاملہ پر غور کریں گے۔

بعد ازاں عدالت میں ججز نے آپس میں مشاورت شروع کر دی، اتنے میں ایڈووکیٹ جنرل سندھ کی دلائل کے لیے سپریم کورٹ سے درخواست کی۔

عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل سندھ سلمان طالب الدین کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔ دلائل شروع کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں دس منٹ سے زائد نہیں لوں گا۔

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ سیاست میں سب کا احترام ہے، عدالت کسی کی تذلیل کرنے نہیں دے گی ،ہم ساڑھے 7 بجے فیصلہ سنائیں گے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاو ل بھٹو روسٹرم پر آئے اور کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کےلیے کام کرتے ہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بلاول بھٹو کے خاندان کی تیسری پیڑھی سیاست میں ہے، سارے معاملے میں اصل اسٹیک ہولڈر ووٹر ہیں ، بلاول  کے خاندان نے بہت قربانیاں دی ہیں۔


متعلقہ خبریں