عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے،اسلام آباد ہائیکورٹ


اسلام آباد ہائی کورٹ نے پیکا آرڈیننس کے خلاف پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اور پی بی اے وغیرہ کی درخواستوں میں ایف آئی اے سے رپورٹ طلب کرتے ہوئے ہدایت کی ہے کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے تفصیلی رپورٹ عدالت جمع کرائیں۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے پیکا ترمیمی آرڈیننس کے خلاف درخواستوں پر سماعت کی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے کہا کہ میں پیکا ترمیمی آرڈیننس پر دلائل دینا چاہتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت تو خود آرڈیننس پر عملدرآمد روکنے کا بیان دے چکی ہے.

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 94 ہزار کیسز ہیں، 22 ہزار کیسز کا فیصلہ ہو چکا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ پھر سے خود کو شرمندہ نہ کریں، ایف آئی اے کی اتنی استعداد ہی نہیں ہے وہ اتنے تربیت یافتہ ہی نہیں ہیں، ایف آئی اے نے پبلک آفس ہولڈرز کی ساکھ کے تحفظ کیلئے مخصوص کاروائیاں کیں،ایف آئی اے پبلک آفس ہولڈرز کی ساکھ کے تحفظ کیلئے نہیں ہے.

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ اس عدالت کے سامنے 22 ہزار میں سے صرف چار پانچ کیسز ہیں،چیف جسٹس اطہرمن اللہ نے کہا کہ ایک پبلک آفس ہولڈر نے 9 بجے اسلام آباد میں شکایت درج کرائی،ایف آئی اے نے مقدمہ لاہور میں درج کر کے اسی وقت اسلام آباد میں چھاپے بھی مارے،کیا یہ عدالت اس طرح کے اقدام کی اجازت دے سکتی ہے، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے آپ کے سیکھتے سیکھتے لوگوں کی بنیادی حقوق کی خلاف ورزی نہیں کی جا سکتی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے عدالتیں موجود ہیں، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے اسی لئے ایف آئی اے نے ایس او پیز جمع کرا کے عدالت سے فراڈ کیا۔

یہ بھی پڑھیں: صدر اور وزیر اعظم کا جاری کردہ کوئی بھی حکم سپریم کورٹ سے مشروط ہوگا، حکمنامہ

ایڈیشنل اٹارنی جنرل قاسم ودود نے موقف اپنایا سوشل میڈیا بہت خطرناک ٹُول ہے،چیف جسٹس نے کہاکہ سوشل میڈیا کو کیوں قصوروار ٹھہرائیں،بندوق سیلف ڈیفنس کیلئے ہوتی ہے لیکن کسی بندر کے ہاتھ دیدیں تو وہ خطرناک ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ کیا آئین یا قانون توڑنے کا کوئی جواز پیش کیا جا سکتا ہے،سوسائٹی میں عدم برداشت کا یہ مطلب نہیں کہ ایسے قانون بنائے جائیں جن کا غلط استعمال ہو سکے،اس عدالت کے سامنے جو کیسز ہیں ان میں ایف آئی اے کے اختیارات کا غلط استعمال ثابت ہو چکا ہے.

ان کیسز میں اختیارات کا غلط استعمال کا ذمہ دار کس کو ٹھہرائیں،ایف آئی اے اختیارات کو صحافیوں کے خلاف غلط استعمال کیا گیا،عدالت نے ہدایت کی ہے ایف آئی اے کل تمام کیسز میں جواب جمع کرائے،عدالت نے یہ ہدایت بھی کی کہ ڈائریکٹر ایف آئی اے تمام کیسز کی رپورٹ عدالت میں جمع کرائیں اورسماعت کل تک ملتوی کر دی ۔


متعلقہ خبریں