قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں کسی سازش کا ذکر نہیں، فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں، میجر جنرل افتخار بابر


راولپنڈی: ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں کسی سازش کا ذکر نہیں، عوام اور سیاسی پارٹیوں سے درخواست ہے کہ فوج کو سیاست میں مت گھسیٹیں۔

پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل بابر افتخار نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی سرحدی صورتحال مستحکم ہے۔ عوام کی حمایت مسلح افواج کی طاقت کا منبع ہے۔

انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ آخری دہشت گرد کے خاتمے تک جاری رہے گی جبکہ پاکستان کے خلاف کسی بھی سازش کو کامیاب ہونے نہیں دے گے۔ تعمیر تنقید مناسب ہے لیکن بے بنیاد کردار کشی کرنا کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ بلوچستان میں دہشت گردوں نے امن و امان کو خراب کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ رواں سال کے پہلے 3 ماہ میں 128 دہشت گردوں کو مارا گیا اور 270 دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا۔ پاکستان کی مسلح افواج کسی بھی قسم کی صورتحال کے لیے مکمل تیار ہے۔

انہوں نے امریکی مراسلے پر بات کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم آفس کی جانب سے عسکری قیادت سے رابطہ کیا گیا تھا اور پاک فوج نے خط کے معاملے پر اپنا مؤقف قومی سلامتی میں پیش کیا تھا۔ قومی سلامتی کا اعلامیہ دھیان سے دیکھیں کیا اس میں سازش کا کوئی لفظ ہے ؟ میرے خیال سے اس میں سازش کا کوئی لفظ نہیں ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے اور عوام اور فوج کے درمیان خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ آرمی چیف واضح کر چکے ہیں کہ فوج کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ سیاست میں فوج کی مداخلت کا کوئی ثبوت ہے تو سامنے لائیں۔ سیاسی جماعتوں کا مطالبہ تھا کہ پاک فوج کا سیاست میں عمل دخل نہیں ہونا چاہیے اور اب اس کو عملی جامہ پہنایا گیا۔ پاک فوج اپنا آئینی اور قانونی کردار ادا کرتی ہے اور کرتی رہے گی۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ہماری خفیہ ایجنسیاں تمام خطرات کے خلاف چوکنا ہیں اور ہمارے ایٹمی پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ہے اس لیے ایٹمی پروگرام کو سیاسی مباحثوں کا حصہ نہیں بنایا جا سکتا۔ ایٹی اثاثے کسی سیاسی جماعت سے منسلک نہیں۔

انہوں نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیہ میں سازش کا ذکر نہیں ہے اور آرمی چیف نہ ایکسٹینشن لینا چاہتے ہیں اور نہ ہی لیں گے۔ آرمی چیف رواں سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔ پاکستان کی بقا جمہوریت میں ہے اور پاکستان میں کبھی مارشل لا نہیں آئے گا۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ سابق وزیر اعظم نے دورہ روس سے پہلے مشاورت کی تھی اور اگر پاکستان سے اڈے مانگے جاتے تو فوج کا جواب بھی ایبسلوٹلی ناٹ ہوتا۔ سوشل میڈیا پر جو مہم چلائی گئی ان کے محرکات تک پہنچ چکے ہیں جس میں بیرونی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔ سوشل میڈیا پر چلنے والی مہم کے خلاف متعلقہ ادارے کام کر رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کسی کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ بغیر تصدیق کے بات کو آگے پہنچا دے۔ فوج کے بارے میں غیر مناسب زبان کے استعمال سے گریز کرنا چاہیے۔ عدالتیں فوج کے ماتحت نہیں عدالتیں آزاد ہیں اور فوج کسی کو این آر او دینے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ فوج کون ہوتی ہے کسی کو این آر او دینے والی وہ اپنا کام کر رہی ہے۔ اگر کوئی دھمکی موصول ہوئی تو وہ وزارت داخلہ دیکھتی ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ احتجاجی مراسلے صرف سازش پر جاری نہیں کیے جاتے اور بھی کئی معاملات میں جاری کیے جاتے ہیں اور یہ سفارتی طریقہ کار ہے۔

انہوں نے کہا کہ فوج کے اندر کسی قسم کی کوئی تقسیم نہیں ہے۔ سیاسی تقاریر میں اگر آرمی چیف کا نام لیا گیا تو پوچھنا کس کا کام ہے ؟ پراپیگنڈا دراڑیں پیدا کرتا ہے اور پراپیگنڈے سے اداروں کے خلاف نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ بطور ادارہ ہماری کوئی زبان نہیں ہے۔ آرمی چیف ادارے کے سربراہ ہیں اور یہ ادارہ حکومت کے ماتحت ہے۔ فوج ڈس انفارمیشن مہم کا بہت بڑا ٹارگٹ ہے۔

ترجمان پاک فوج نے کہا کہ ملک میں سیاسی استحکام کے لیے کچھ وقت درکار ہے اور جو کام دشمن 7 دہائیوں میں نہ کر سکا وہ ہم آج بھی نہیں کرنے دیں گے۔

انہوں نے کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے گزشتہ حکومت کو کوئی آپشن نہیں دیا تھا اور وزیر اعظم ہاؤس کی جانب سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا تھا کہ سیاسی ڈیڈ لاک برقرار تھا اس میں بیچ بچاؤ کی بات کی جائے لیکن سیاسی جماعتیں اس وقت بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھیں۔ آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وزیر اعظم ہاؤس گئے تھے جہاں ان کے رفقا کے ساتھ بات چیت ہوئی اور اس وقت 3 آپشنز سامنے تھے۔

انہوں نے کہا کہ پہلا آپشن تحریک عدم اعتماد پیش کرنا اور دوسرا وزیر اعظم مستعفی ہوں۔ تیسرا اپوزیشن تحریک واپس لے لے اور اس وقت پی ڈی ایم کے پاس جا کر یہ گزارش رکھی گئی جس پر انہوں نے کہا کہ ہم نے جو تحریک جمع کرائی ہے اسی پر قائم رہیں گے۔

میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ پاک فوج کے سابق افسران کی جعلی آڈیو ٹیپس بنائی جا رہی ہیں جو کسی صورت درست نہیں ہیں۔


متعلقہ خبریں