آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں، کام کرتے رہیں گے،کوئی انگلی نہ اٹھائے، چیف جسٹس

supreme court

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدالت 24 گھنٹے کام کرتی ہیں، ہماری کارروائی پر کوئی انگلی نہ اٹھائے،آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے۔

سپریم کورٹ میں صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران جسٹس جمال خان نے کہا کہ کچھ لوگ چاہتے ہیں انحراف کی اجازت ہو کچھ چاہتے ہیں نہ ہو؟ آج کل آسان طریقہ ہے 10ہزار بندے جمع کرو کہو میں نہیں مانتا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمان نے تاحیات نااہلی کا واضح نہیں لکھا، پارلیمنٹ نے یہ جان بوجھ کر نہیں لکھا یا غلطی سے نہیں لکھا گیا، پارلیمنٹ موجود ہے، یہ معاملہ دوبارہ اس کے سامنے پیش کردیں، عدالت کے سر پر کیوں ڈالا جارہا ہے ؟

اے جی اسلام آباد نے کہا کہ آئین کی تشریح کرنا عدالت کا ہی کام ہے، سینیٹ الیکشن کے بعد بھی ووٹ فروخت ہورہے ہیں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ پارلیمنٹ کو خود ترمیم کرنے دیں ، چیف جسٹس نے کہا کہ 10سے15ہزار لوگ جمع کر کے عدالتی فیصلے پر تنقید کریں تو ہم کیوں فیصلے دیں، ایسے فیصلوں کا احترام چاہتے ہیں، عدالت اپنا آئینی کام سر انجام دیتی ہے، قومی لیڈروں کو عدالتی فیصلوں کا دفاع کرنا چاہیے، آئینی تحفظ پر گالیاں پڑتی ہیں لیکن اپنا کام کرتے رہیں گے، عدالت کیوں آپ کے سیاسی معاملات میں پڑے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ پارلیمانی جمہوریت کی ایک بنیاد سیاسی جماعت ہے، سیاسی جماعتوں کو چار صورتوں میں آرٹیکل 63 میں تحفظ دیا گیا ہے، ضیا الحق نے پارٹی سے انحراف پر پابندی کی شق آئین سے نکال دی تھی ، ہارس ٹریڈنگ پر فیصلے آئے تو 1998 آئین میں ترمیم کی گئی ، 2010میں 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے شامل کیا گیا ، آئین کی خلاف ورزی چھوٹی بات نہیں ہے، کئی لوگ آئین کی خلاف ورزی پر آرٹیکل چھ پر چلے جاتے ہیں، آرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی آرٹیکل 6 کا کیس نہیں بنتا ، صدراتی ریفرنس کے مطابق منحرف اراکین پر آرٹیکل 62 ون کا اطلاق ہونا چاہیے، عدالت تعین کرے گی کہ آئین سے انحراف کا کیا نتیجہ ہوگا ، آئین کی خلاف ورزی کرنے والا یا اپنی خوشی پر جائے گا یا قیمت ادا کرنی ہو گی۔

یہ بھی پڑھیں: تحائف بیچ کر بنی گالہ کی سڑک بنوائی،گھر کے باہر باڑ لگوائی، عمران خان

ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ پارٹی سے انحراف رکن اسمبلی کے حلف کی خلاف ورزی ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ آرٹیکل تریسٹھ اے تاحیات نااہلی ہوئی تو ارٹیکل 95 کی کیا اہمیت رہ جائے گی؟ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے کہا کہ آرٹیکل 95 کا سوال ابھی عدالت کے سامنے نہیں ہے۔

تحریک انصاف کے وکیل بابر اعوان نے کہا کہ ہماری درخواست کا میمو دیکھ لیں، درخواست کا میمو گیٹ سے تعلق نہیں ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب گیٹ بند کرنا ہو گا۔

بابر اعوان نے کہا کہ گیٹ بند کرنے کا موقع تھا لیکن ضائع کردیا گیا۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کو ریفرنس پر دلائل دینے کے لیے نوٹس جاری کیا تھا، اگر آپ سابق اٹارنی جنرل کے دلائل اپنانا چاہتے ہیں تو بتا دیں، ہمیں بتائیں آپ ریفرنس پر کیا موقف اپناتے ہیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ میں سابق اٹارنی جنرل کے دلائل نہیں اپناوں گا، پی ٹی آئی کی جانب سے دائر درخواست پر بات کرنا چاہتا ہوں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ اس وقت آپ کی وہ درخواست ہمارے سامنے نہیں۔بابر اعوان نے کہا کہ ریفرنس پر دلائل کل دے سکتا ہوں۔

چیف جسٹس نے بابر اعوان کو ہدایت دی کہ ٹھیک ہے ہم آپ کو کل سنیں گے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آج مزید ایک گھنٹے تک سماعت جاری رکھیں گے۔

ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا شمائل بٹ نے کہا کہکیا صوبوں کو بھی آج ہی سنا جائے گا ؟چیف جسٹس نے کہا کہ اگر آپ نے تحریری معروضات جمع کرادی ہیں تو آپ کو سن لیتے ہیں، ایڈووکیٹ خیبرپختونخوا نے کہا کہ تحریری معروضات جمع نہیں کرائیں۔ کل جمع کراوں گا۔

مصطفیٰ رمدے نے کہا کہ صدر نے ریفرنس میں عدالت سے آئین دوبارہ لکھنے کا کہا ہے، آرٹیکل تریسٹھ اے بالکل واضح ہے، کیا عدالتی اختیارات میں کمی کی آئینی ترمیم پر پارٹی پالیسی سے اختلاف جرم ہو گا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آئینی ترمیم میں ووٹ نہ دینا اور مخالف پارٹی کو ووٹ دینا الگ چیزیں ہیں، مخالف پارٹی کو ووٹ دینے کے لیے مستعفی ہونا زیادہ معتبر ہے۔

مصطفی رمدے نے کہا کہ مستعفی ہونے جیسا انتہائی اقدام واحد حل کیسے ہو سکتا ہے، پارٹی سربراہی کی پابندی کرنا غلامی کرنے کے مترادف ہے۔

جسٹس مینب اختر نے کہا کہ ایسی بات سے آپ پارلیمانی جمہوریت کی نفی کررہے ہیں، پارلیمانی پارٹی کے فیصلے سے اختلاف ہے تو الگ ہو جائیں گے، ضمنی الیکشن آزاد حثیت سے لڑ کر واپس آیا جاسکتا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ جیسے آئین نے منحرف قرار دیا ہے، آپ اسے معزز کیسے بنارہے ہیں، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی شکایت ہے یا نہیں کیا ہورہا ہے ہم نہیں جانتے۔

وکیل بی این پی مینگل نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہے جو اسلام آباد اور لاہور میں ہوا ۔بابر اعوان نے کہا کہ ویڈیو معاملے پر دو رکن الیکشن کمیشن گئے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بابر اعوان نے جو بات کی ہے اس سے لگتا ہے کہ انکی جماعت بھی سنجیدہ نہیں، ازخود نوٹس کیس کے حوالے سے سپریم کورٹ نے پیرامیٹرز طے کردیئے ہیں، ہمیں مایوسی ہوئی ہے پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں درخواست دیتے ہوئے عدالتی فیصلے کے مطابق عمل نہیں کیا۔

بابر اعوان نے کہا کہ حفیظ شیخ کو شکست ووٹ بکنے سے ہوئی ، صاف انتخابات الیکشن کمیشن کی زمہ داری ہے، چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے وقت پی ٹی آئی نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ میں کوئی شکایت نہیں کر رہا سیاسی جماعتوں سے درخواست کر رہا ہوں کہ پارلیمانی جمہوریت کا دفاع کریں۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ریفرنس سے لگتا ہے آئین میں نقص نہیں، نقص ہم میں ہے۔

وکیل مصطفی رمدے نے کہا کہ جس ریفرنس میں آڈیو وڈیو کا ذکر کیا گیا اس پر حکومت نے خود کچھ نہیں کیا، بلوچستان میں حکومت تبدیل ہوئی وفاق نے کچھ نہیں کیا، اسلام آباد اور پنجاب میں جو ہوا وہ بھی عدالت کے سامنے ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں آڈیو وڈیو ثبوت لے کر ہمارے دو ممبران اسمبلی الیکشن کمیشن گئے تھے۔چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کے 2 ارکان اسمبلی الیکشن کمیشن گئے لیکن آپ کی جماعت نہیں، معذرت کے ساتھ یہ کہہ رہا ہوں کہ آپ کی جماعت آڈیو ویڈیو معاملے پر سنجیدہ نہیں تھی، ہمیں کہا جاتا ہے کہ ازخود نوٹس لیں، سپریم کورٹ ازخود نوٹس لیے جانے کے طریقہ کار طے کر چکا ہے۔


متعلقہ خبریں