بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ عدالتیں آزاد نہیں، کردار کشی سے نہیں ڈرتے، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ


اسلام آباد ہائیکورٹ : چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہر تقریر میں کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ رات بارہ بجے کھلی، یہاں درخواست زیر سماعت ہے اور دوسری طرف بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں۔

فواد چودھری کی توہین مذہب کے مقدمات کیخلاف دائر درخواست کی سماعت کے دوران  چیف جسٹس اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی چیئرمین نے گزشتہ روز بھی کہا کہ عدالتیں رات کو کیوں کھلیں،عمران خان اپنے ورکرز کو پیغام دے رہے ہیں کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں، اپنے کلائنٹ سے پوچھ کر عدالت کو آگاہ کریں کہ کیا انہیں عدالت پر اعتماد ہے؟ اگر عمران خان کو عدالت پر اعتماد نہیں تو یہ عدالت کیس نہیں سنے گی۔اگر عمران خان یہ پیغام دے رہے ہیں کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ کمپرومائزڈ ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ رولز کے مطابق عدالتیں 24 گھنٹے کھلی رہ سکتی ہیں، عدالتوں کے خلاف بہت مہم چلائی جا چکی ہے، اس عدالت کو اس کردار کشی مہم سے فرق نہیں پڑتا، یہ عدالت اور بہت بڑے کیسز سن رہی ہے جو کہ ایگزیکٹو کے کرنے کے کام ہیں، یہ عدالت مسنگ پرسنز اور بلوچ طلبہ کے کیسز سن رہی ہے، یہ عدالت سیاسی بیانیوں سے اُن کے حقوق سلب نہیں ہونے دے گی، 2014 دھرنے کے دوران رات گیارہ بجے بھی پی ٹی آئی ورکرز کو ریلیف دیا گیا، عدالتی اوقات کے بعد بہت سے کیسز میں ریلیف دیا گیا ہے۔

یہ عدالت کل کیس دوبارہ سنے گی ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کریں، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ 9 اپریل کو اس عدالت میں چار درخواستیں دائر ہوئی تھیں، کیا اس عدالت نے 9 اپریل کی رات کسی درخواست پر سماعت کی؟ اگلے روز وہ درخواست جرمانے کے ساتھ مسترد کی، اگر کہتے ہیں تو کیسز اس عدالت کو بھیج دیتے ہیں جس پر انہیں اعتماد ہے۔

یہ بھی پڑھیں: میرے پاک فوج سے تعلقات تھے، ہیں اور رہیں گے، مجھے اس پرفخر ہے، شیخ رشید

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ میں ابھی ان سے بات کر لیتا ہوں اور انہیں بلا لیتا ہوں، چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں، انکو مت بلائیں بلکہ ہدایات لے کر عدالت کو آگاہ کر دیں، عمران خان کہتے ہیں کہ عدالتیں کمزور طبقے کیلئے کچھ نہیں کرتیں، اس عدالت نے جتنے کمزور طبقے کے کیسز پر ریلیف دیا وہ ریکارڈ نکال کر دیکھ لیں۔

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا یہ عدالت ہمیشہ کمزور طبقے کو ریلیف دیتی ہے۔ہمارے سیاسی مخالفین اس عدالتی آرڈر کو سیاسی طور پر ہمارے خلاف استعمال کرینگے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہر تقریر میں کہا جا رہا ہے کہ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ رات بارہ بجے کھلی، یہ کیوں کہا جا رہا ہے؟ کیا بیانیہ بنایا جا رہا ہے، یہاں درخواست زیر سماعت ہے اور دوسری طرف بیانیہ بنایا جا رہا ہے، اس کا مطلب ہے کہ یہ بیانیہ بنایا جا رہا ہے کہ عدالتیں آزاد نہیں ہیں، یہ عدالت اکثر اوقات عدالتی اوقات کے بعد کیسز پر آرڈر پاس کیے ہیں، یہ عدالت کسی پریشر میں نہیں آئے گی نہ کردار کشی مہم سے گھبراتی ہے،
فیصل چوہدری نے کہا کہ اس عدالت کا پیغام موصول ہو چکا ہے لیکن یہ آرڈر سیاسی بحث مباحثہ کا حصہ بنے گا۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت چھوڑ تو نہیں سکتی اس عدالت نے تو کل خود تقریر سنی ہے، میں نے وہ تقریر سنی ہے آپ بھی جا کر وہ سن لیں، اس عدالت نے ہمیشہ تحمل کا مظاہرہ کیا ہے کبھی توہین عدالت کے قانون کا سہارا نہیں لیا، بہت تنقید ہوئی اور بہت کردار کشی مہم چلائی گئی، آپکی جماعت کے فالوور سمجھتے ہیں کہ میرا مانچسٹر میں کوئی فلیٹ ہے، جسٹس منصور علی شاہ کے ساتھ میری ایک تصویر چلائی جا رہی ہے۔

وکیل پی ٹی آئی نے کہا کہ لیکن وہ تصویر بہت اچھی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سے کوئی غلطی ہوئی تو ضرور تنقید کریں، اُس رات ایک درخواست آئی تھی کہ وزیراعظم کابینہ میٹنگ بلا رہے ہیں اُنکو روکیں، اس عدالت نے اُس درخواست کو انٹرٹین نہیں کیا۔

ایڈووکیٹ فیصل چوہدری نے کہا کہ اگر ہمیں شک ہو تو ہم خود بھی پیش نہ ہوں، چھوٹے موٹے شہری بات کرتے رہتے ہیں آپ ہمارے بڑے ہیں، یہ عدالت عید کی چھٹیوں میں ہمارے لئے بھی تو کھلی تھی۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ یہ عدالت اپنی ڈیوٹی پوری کرتی رہے گی، وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ آپ باہمت شخص ہیں لاپتہ افراد کیلئے کھڑے ہوئے۔

عدالت نے کیس کی سماعت 12 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے فواد چوہدری کو گرفتاری سے روکنے اور ہراساں نہ کرنے کے حکم میں 12 مئی تک توسیع کر دی۔


متعلقہ خبریں