منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا عدالتی رائے، تاحیات نااہلی پر خاموشی

سپریم کورٹ خط (supreme court letter)

سپریم کورٹ نے منحرف اراکین اسمبلی سے متعلق  صدارتی ریفرنس پر اپنی رائے دیتے ہوئے کہا ہے کہ منحرف اراکین کا ووٹ شمار نہیں ہو گا۔

صدارتی ریفرنس پر سپریم کورٹ نے 8 صفحات پر مشتمل مختصر تحریری حکم نامہ جاری کردیا جسے اکثریتی رائے سے نمٹایا گیا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منیب اختر نے اکثریتی فیصلہ دیا ہے۔

اکثریتی رائے میں کہا گیا ہے کہ پارلیمانی جمہوری نظام آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعتوں کو تحفظ فراہم کرتا ہے،جو درحقیقت آئین کے بنیادی دیباچے میں سے ایک ہے، جمہوری نظام میں سیاسی جماعتوں کا کردار بنیادی ہے۔

سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کرنا درحقیقت انکی بنیادوں کو ہلانے کے مترادف ہے، منحرف اراکین کے زریعے ہی سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کیا جاتا ہے، کسی بھی سیاسی جماعت کے رکن کو منحرف ہونے سے روکنے کیلئے موثر اقدامات کی ضرورت ہے۔

آرٹیکل 63 اے کی تشریح بنیادی انسانی حقوق کے تناظر میں وسیع انداز میں ہونی چاہیے، پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کیخلاف ڈالا گیا ووٹ شمار نہیں ہوگا۔

آئین کے آرٹیکل 63 اے کے تحت جماعت کی ہدایت کی اہمیت ہے،یہ آرٹیکل قانون سازی کے میدان میں سیاسی جماعتوں کے تحفظ اور ہم آہنگی کو یقینی بنانے کا کام کرتا ہے۔سیاسی جماعیتیں کا پارلیمانی جمہوری نظام میں بنیادی کردار ہوتا ہے۔

جمہوریت ہماری سیاسی جماعتون کی بنیاد پر ٹکی ہوئی ہے۔انحراف سب سے زیادہ نقصان دہ طریقوں میں سے ایک ہے ،اس عمل سے سیاسی جماعتوں کو غیر مستحکم کیا جاسکتا ہے۔انحراف کرنے کا عمل سیاسی کینسر ہے جس کی مزمت کی جاتی ہے۔

پارٹی کی جانب سے جاری کردہ کسی بھی ہدایت کےخلاف ووٹ ڈالا جائےتو اس کو شمار نہیں کیا جاسکتا اکثریتی رائے ،ڈالے گئے ووٹ کو نظر انداز کردینا چاہیے۔

آرٹیکل 63 اے سے انحراف کےتحت نااہلی ہوسکتی ہے۔اب وہ وقت آگیا ہے کہ اس پر قانون سازی ہونی چاھئیے ۔ریفرنس میں پوچھاجانےوالا سوال مبہم ، وسیع اور عمومی ہے اس کو بغیر رائے کے واپس کیا جاتا ہے۔ عدالت میں اس حوالے سے جو بھی درخواستیں دائر کی گئی تھیں وہ خارج کی جاتی ہیں۔

اختلافی نوٹ

جسٹس مظہر عالم میاں خیل اور جسٹس جمال خان مندوخیل نے اختلافی نوٹ لکھا۔ اقلیتی رائے کے مطابق آرٹیکل 63 اپنے آپ میں ایک مکمل ضابطہ ہے، یہ شق رکن پارلیمنٹ کو منحرف ہونے کے نتائج سے آگاہ کرتا ہے۔

اس شق کے تحت اگر الیکشن کمیشن کسی پارٹی سربراہ کے بھیجے ریفرنس کی تصدیق کی تو وہ ایوان سے رکنیت کھو دے گا۔

اقلیتی رائے،الیکشن کمیشن کے ایسے فیصلے پر متاثرہ فریق کو اپیل کا حق شق 63 کے تحت حاصل ہے۔ آرٹیکل 63 اے کی تشریح ھمارے خیال میں آئین کو دوبارہ لکھنے کے مترادف ہوگی،تشریح کی تو اس کا اثر ائین کی دیگر شقوں پر بھی پڑے گا۔۔اور صدر نے ان شقوں کے بارے میں اپنے ریفرنس میں پوچھا بھی نہیں ،صدارتی ریفرنس میں پوچھے گئے سوالات میں کوئی طاقت نظر نہیں آتی۔

اس لئے ان پر رائے دینا ہمارا مینڈیٹ نہیں ۔صدارتی ریفرنس پر ھماری طرف سے جواب نفی میں ہے ،اگر پارلیمنٹ مناسب سمجھتی ہے تو منحرف میمبران کے خلاف مزید پابندیاں عائد کرسکتی ہے ۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ میں آرٹیکل 63 اے کی تشریح سے متعلق صدارتی ریفرنس پر سماعت ہوئی۔چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بنچ  نے سماعت کی۔

اٹارنی جنرل اشتر اوصاف نے عدالت میں مؤقف اپنایا کہ عدالت ایڈوائزری اختیار میں صدارتی ریفرنس کا جائزہ لے رہی ہے، صدارتی ریفرنس میں قانونی سوال یاعوامی دلچسپی کے معاملہ پر رائے مانگی جاسکتی ہے۔عدالت صدارتی ریفرنس کو ماضی کے پس منظرمیں بھی دیکھے۔

اٹارنی جنرل کے دلائل پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ صدرکو صدارتی ریفرنس کیلئے اٹارنی جنرل سے قانونی رائے لینےکی ضرورت نہیں، آرٹیکل 186 کے مطابق صدر مملکت قانونی سوال پر ریفرنس بھیج سکتے ہیں۔

آئین کی تشریح سپریم کورٹ کرسکتی ہے اور کرے گی، چیف جسٹس آف پاکستان

عدالت نے  اٹارنی جنرل  سے استفسار کیا کہ کیا آپ کہہ رہے ہیں ریفرنس ناقابل سماعت ہے؟ کیا آپ کہہ رہے ہیں کہ ریفرنس کو جواب کے بغیر واپس کردیا جائے؟

جسٹس منیب نے کہا  کہ سابق اٹارنی جنرل نے ریفرنس کو قابل سماعت قرار دیا،  اب بطور اٹارنی جنرل آپ اپنا مؤقف دے سکتے ہیں۔

اس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ  صدر مملکت کو قانونی ماہرین سے رائے لےکر ریفرنس فائل کرنا چاہیے تھا، قانونی ماہرین کی رائے میں تضاد ہوتا تو صدر مملکت ریفرنس بھیج سکتے تھے۔

 چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صدارتی ریفرنس پر کافی سماعتیں ہو چکی ہیں۔آرٹیکل 17 سیاسی جماعت کے حقوق کی بات کرتا ہے۔آرٹیکل 63 اے سیاسی جماعت کے حقوق کا تحفظ کرتا ہے۔

انہوں نے کہا ہے کہآرٹیکل 63 اے کی خلاف ورزی پر 2 فریقین سامنے آئے ہیں۔ ایک وہ جو انحراف کرتے ہیں، دوسرا فریقین سیاسی جماعت ہوتی ہے۔مارچ میں صدارتی ریفرنس آیا، تکنیکی معاملات پر زور نہ ڈالیں۔

ان کا کہنا تھا کہ صدارتی ریفرنس کے قابل سماعت ہونے سے معاملہ کافی آگے نکل چکا ۔ڈیرھ ماہ سے صدارتی ریفرنس کو سن رہے ہیں۔


متعلقہ خبریں