سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دے دی


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو اسلام آباد میں جلسے کی اجازت دے دی۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی جانب سے جمع کرائی گئی درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ جہاں جے یو آئی نے دو مرتبہ دھرنا دیا وہاں ہی احتجاج کرنا چاہتے ہیں۔  پی ٹی آئی نے عدالت کو پرامن دھرنے اور امور زندگی متاثر نہ ہونے کی یقین دہانی کروا دی۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) نے آج عدالت سے سری نگر ہائی وے پر دھرنے کی اجازت دینے کی استدعا کی تھی۔

سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کی استدعا پر وزیر اعظم سے ہدایات لینے کا حکم دیا۔ سپریم کورٹ نے ہدایت کی تھی کہ اٹارنی جنرل ایک گھنٹے میں وزیر اعظم سے ہدایات لے کر آگاہ کریں اور توقع ہے ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے گا۔ سپریم کورٹ سیاسی معاملات میں نہیں پڑے گی اور سیاسی معاملات کے لیے آئین نے اجازت دی ہے تاہم سیاسی معاملات سے ہمارا لینا دینا نہیں ہے ہم نے صرف آئینی معاملات کو دیکھنا ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن کا کہنا تھا کہ دونوں فریقین میں رابطے کا فقدان ہے اور شائستگی کی کمی کی وجہ سے معاملات بگڑ رہے ہیں۔ وکلا کو ہراساں نہ کیا جائے اور نہ ان کے دفاتر پر چھاپے مارے جائیں۔ عدالت اس معاملے میں ثالثی کا کردار ادا کر رہی ہے تاہم تحریک انصاف دھرنے کا دورانیہ بتائے۔

یہ بھی پڑھیں: سابقہ حکومت کے پاس مہنگائی کو کنٹرول کرنے کا وقت نہیں تھا، وزیر اعظم

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے جواب عدالت کو بتانے سے معذرت کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا کہ یہ سیاسی فیصلہ ہے اس کو سیاسی فورم پر ہی ہونے دیں اور ہمارا مطالبہ نئے انتخابات کا ہے اس پر اٹارنی جنرل سے بات نہیں کروں گا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ توقع ہے ایک گھنٹے میں فریقین کا اتفاق رائے ہو جائے گا جبکہ احتجاج روکنے کے لیے چھاپے اور گرفتاریاں غیر قانونی عمل ہے اور پی ٹی آئی کو موٹروے یا فیض آباد بند نہیں کرنے دیں گے جبکہ شیلنگ اور لاٹھی چارج کے حوالے سے باضابطہ حکم جاری کریں گے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے کہا کہ ایم پی او کے تحت ہونے والی ایف آئی آرز نہیں چلیں گی۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ایم پی او کے حوالے سے بھی حکمنامہ جاری کریں گے۔

سپریم کورٹ نے پنجاب پولیس کے اقدامات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا پولیس کا کام گاڑیاں توڑنا اور آگ لگانا ہے؟

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ لاہور میں ایک گھر سے اسلحہ برآمد ہوا ہے۔

جسٹس مظاہر نقوی نے ریمارکس دیئے کہ اسلحہ تو آج کل ہر گھر میں ہوتا ہے اور صبح سے کیا اسلحے والی کہانی سنائی جا رہی ہے اس کہانی کو اب بند کر دیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ لاہور کو میدان جنگ بنایا ہوا ہے، پنجاب میں جو ہو رہا ہے وہ بدقسمتی ہے۔


متعلقہ خبریں