ملک میں کانگو وائرس پھیلنے کا خدشہ: این آئی ایچ نے ایڈوائزری جاری کردی

ملک میں کانگو وائرس پھیلنے کا خدشہ: این آئی ایچ نے ایڈوائزری جاری کردی

اسلام آباد: قومی ادارہ صحت (این آئی ایچ) نے کانگو وائرس پھیلنے کے خدشے کے پیش نظر وفاقی و صوبائی وزارت صحت اور دیگر متعلقہ محکموں کے لیے ایڈوائزری جاری کردی ہے۔

پشاور میں بھی کانگو وائرس کے 4 کیس سامنے آ گئے

ہم نیوز کے مطابق این آئی ایچ نے ایڈوائزری اس وقت جاری کی ہے کہ جب عیدالاضحیٰ کی وجہ سے عام افراد کا بہت زیادہ تعلق قربانی کے جانوروں سے ہوتا ہے۔

واضح رہے کہ رواں سال ملک میں چار افراد میں کانگو وائرس پائے جانے کی تصدیق ہو چکی ہے۔ متاثرہ مریضوں میں سے دو کا تعلق صوبہ پنجاب اور دو کا صوبہ سندھ سے ہے۔

کانگو وائرس زیادہ تر چیچڑ( کیڑا) کے کاٹنے، متاثرہ جانور کو ذبح کرنے کے فوراً بعد اس کے خون یا گوشت کے ٹشوز کو ہاتھ لگانے سے ہوتا ہے۔

اعداد و شمار کے تحت کانگو وائرس سے متاثرہ افراد میں شرح اموات 10 سے 40 فیصد تک ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ اس مرض میں مبتلا افراد کو تحفظ فراہم کرنے والی کوئی ویکسین بھی تاحال مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہے۔

این آئی ایچ کی جانب سے جاری کردہ ایڈوائزری میں کہا گیا ہے کہ عید الاضحیٰ کے موقع پر تمام تر احتیاطی تدابیر اختیار کی جائیں کیونکہ ویکسین نہ ہونے کی وجہ سے احتیاط ہی اس کا سب سے بہترین علاج ہے۔

اسلام آباد میں کانگو وائرس کا پہلا کیس سامنے آگیا

جاری کردہ ایڈوائزری میں بتایا گیا ہے کہ کانگو وائرس سے متاثرہ مریض ابتدا میں تیز بخار، سر، کمر اور جوڑوں میں درد کی شکایت کرتا ہے جب کہ اس کی آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، گلا بھی سرخ دکھا دیتا ہے اور دانتوں سے خون آنے کی شکایت بھی پیدا ہو جاتی ہے۔

این آئی ایچ کی جانب سے مشورہ دیا گیا ہے کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر بطور خاص پورے بازوؤں والے کپڑے پہنے جائیں اور جیسے ہی جانور پر چیچڑ دکھائی دے اس کو کسی بھی کپڑے سے پکڑ کر علیحدہ کردیں۔

جاری کردہ ایڈوائزری کے تحت بھینس، بیل، بھیڑ اور بکرے و بکریاں کانگو وائرس سے متاثر ہوتی ہیں۔ صوبہ بلوچستان میں کونگو سے متاثرہ زیادہ مریض رپورٹ ہوئے تھے لیکن ملک کے دیگر علاقوں میں بھی کانگو سے متاثرہ کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔

کانگو وائرس سے کیسے بچا جائے ؟

ہم نیوز کے مطابق قومی ادارہ صحت نے واضح طور پر کہا ہے کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پہ اس بات کی تسلی کی جائے کہ جانور کانگو سے متاثر تو نہیں ہے، اس کے علاوہ متاثرہ مریضوں سے ملنے میں بھی احتیاط برتی جائے اور اس مرض میں مبتلا افراد کے انتقال کرجانے کی صورت میں تدفین احتیاطی تدابیر کے ساتھ کی جائے۔


متعلقہ خبریں