حمزہ شہباز عبوری وزیراعلیٰ، دوبارہ انتخاب 22 جولائی کو ہو گا، سپریم کورٹ

سپریم کورٹ خط (supreme court letter)

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے لیے 22 جولائی کی تاریخ دے دی۔

سپریم کورٹ میں پی ٹی آئی کی لاہورہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیل پر سماعت ہوئی تحریک انصاف نے سات دن کا وقت مانگا تو چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے استفسار کیا ہے کہ صوبہ کیسے چلے گا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال ، جسٹس اعجاز الحسن اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل بنچ نے کیس کی سماعت کی۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ پانچ درخواستیں ہیں کس کی طرف سے کون سا وکیل پیش ہورہا ہے وہ بتائیں، بابر اعوان نے کہا کہ میں درخواست گزار سبطین خان کی طرف سے پیش ہورہا ہوں۔

پی ٹی آئی کے وکیل بابر اعوان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جس جج نے اختلافی نوٹ دیا ہے اسکے ایک نکتے پر متفق بھی ہوئے ہیں، سادہ سی بات ہے کہ فیصلے میں کہا گیا ہے کہ جنہوں نے 197 ووٹ لئے ہیں ان میں سے25 ووٹ نکال دیئے ہیں، جب وہ 25 ووٹ نکال دیتے ہیں تودوبارہ گنتی کرائیں، چار ججز نے یہ کہا ہے کہ پہلے گنتی کرائیں اگر 174 کا نمبر پورا نہیں تو پھر انتخاب کرائیں، آپ یہ کہنا چاہتے ہیں آپ کے کچھ ممبران چھٹیوں اور حج کا فریضہ ادا کرنے گئے ہیں۔ ووٹنگ کے دوران جتنے بھی ممبر ایوان میں موجود ہونگے اس پر ووٹنگ ہونی ہے جو کامیاب ہوگا وہ کامیاب قرارپائے گا۔آپ کی درخواست ہے کہ وقت کم دیا گیا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ ہماری استدعا ہے کہ ہم چاہتے ہیں کہ زیادہ سے زیادہ ممبران کو ووٹ ڈالنے کی اجازت دی جائے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کی درخواست میں یہ بات نہیں ہم آپ کی درخواست کو پڑھ کر آئے ہیں، بنیادی طور پر آپ یہ مانتے نہیں کہ فیصلہ آپ کے حق میں ہوا ہے۔

بابر اعوان نے کہا کہ وہ ذاتی طور پر اس فیصلے کو مانتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ چار ججز نے آج کی اور ایک جج نے کل کی تاریخ دی ہے، کیا آپ کل کی تاریخ پر راضی ہیں؟

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جو ممبران کہیں گئے ہوئے ہیں وہ 24اور 48 گھنٹوں میں پہنچ سکتے ہیں۔ بابر اعوان نے استدعا کی کہ ہم الیکشن لڑنا چاہتے ہیں لیکن لیول پلینگ فیلڈ کے لئے وقت دیا جائے، ہمیں سات دن کا وقت دیا جائے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ سات دن کا وقت مناسب نہیں ہے۔ بابر اعوان نے جواب دیا کہ ہم تو دس دن چاھتےتھے جناب۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ بتائیں جو مناسب وقت آپ کو چاہیے، بابر اعوان نے کہا کہ ہماری پانچ مخصوص نشستوں پر خواتین کا نوٹیفیکیشن ہونا ہے اس کو سامنے رکھا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ سات دن صوبہ وزیر اعلیٰ کے بغیر رہے گا، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ آئین میں کیا  لکھا ہے کہ اگر وزیر اعلیٰ موجود نہ ہوتو صوبہ کون چلائےگا۔ بابر اعوان نے بتایا کہ اس صورت میں گورنر اس وزیر اعلیٰ کو نئے وزیر اعلیٰ آنے تک کام جاری رکھنے کی ہدایت کرتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی وزیراعلیٰ پنجاب کا الیکشن رکوانے سپریم کورٹ پہنچ گئی،درخواست دائر،آج ہی سماعت کی استدعا

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ آپ یہ نہیں کہہ سکتے کہ صوبہ دو دن بغیر وزیر اعلیٰ کے رہ سکتا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ اگر وزیراعلیٰ کسی بھی وجہ سے موجود نہ ہو تو حکومتی کام کیسے چلے گا؟ بابر اعوان نے کہا کہ ایسی صورت میں عبوری حکومت آئے گی، اگر وزیر اعلیٰ بیمار ہو تو سینیئر وزیر انتظامات سنبھالے گا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اب ہم سمجھے ہیں کہ ہائیکورٹ کے پانچ رکنی ججز نے ایسا فیصلہ کیوں دیا، وہ چاہتے ہیں کہ صوبے میں حکومت قائم رہے۔ موجودہ وزیر اعلیٰ نہیں تو پھر سابق وزیر اعلیٰ کا سوال پیدا ہی نہیں ہوتا۔  سابق وزیر اعلیٰ کے اکثریت سے 25 ممبران تو نکل گئے ہیں۔

جسٹس اعجازالا حسن نے کہا کہ اگرپچیس ووٹرز نکال لیں تو پھر موجودہ وزیر اعلیٰ بھی نہیں رہتا۔ وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ اگر ہمارے 25 ممبران نکل بھی جائیں تو 169 ممبر ہمارے پاس ہیں۔۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ اس وقت سوال یہ ہے کہ کیا چار بجے صوبائی اسمبلی کا سیشن ہوسکتا ہے یا نہیں ؟ دوسرا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مزید کتنا وقت درکار ہوگا۔ ؟ بتائیں وہ کونسا نقطہ ہے جس کی بنیاد پر چار بجے والا سیشن روک سکیں۔ ؟ اگر وزیراعلیٰ کے پاس 186 ووٹ نہیں تو انکا فی الحال برقرار رہنا مشکل ہے۔

وکیل بابر اعوان نے کہا کہ پنجاب میں ایک قائم مقام کابینہ تشکیل دی جا سکتی ہے۔

چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے کہا کہ ہم آپ کی مزید وقت دینے کی پریشانی کوسمجھتے ہیں، لیکن یہ بتائیں کہ اگر وقت دیتے ہیں تو اس دوران صوبے کے معاملات کیسے چلیں گے، جمہوریت زیادہ بہتر طور پر چل سکتی ہے جب عوام فیصلہ کرے ، میرے خیال میں گورنر کی جانب سے عبوری طور پر کام کرتے ہیں تو وہ عمل غیر آئینی ہوگا۔ ہم آپ کو آدھے گھنٹے کا وقت دیتے ہیں سوچیں، دوسری سائیڈ بھی سوچے یہ کیسے ہوسکتا ہے تیاری کریں۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ نگران حکومت تو اس وقت بن سکتی ہے جب اسمبلی موجود نہ ہو۔

مختصر وقفے کے بعد بابر اعوان نے کہا کہ ہمیں چوبیس گھنٹے دیئے جائیں، ہم مزید مشاورت کریں گے، لیکن اپوزیشن لیڈر کا یہ موقف ایسا نہیں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے پرویز الہی کے وکیل سے سوال کیا کہ آپ بھی تیار ہیں کہ چار بجے والا انتخاب نہیں ہوسکتا، چوہدری پرویز الہی کے وکیل عثمان منصور نے اپنے دلائل میں کہا کہ وزیر اعلی پر اعتراض نہیں، انتخاب حج کے بعد رکھ لیں، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ پرویز الہی راضی ہیں کہ حمزہ شہباز شریف وزیر اعلی کے طور پر کام جاری رکھیں، بابر اعوان نے کہا ہے کہ سات دن کا وقت دیں لیکن میرے خیال میں یہ وقت زیادہ ہے۔

میرے خیال میں اختلاف کرنے والے جج نے جو وقت دیا اس میں ایک دن کا اضافہ کریں، میرے خیال میں جو ہائیکورٹ کے فیصلے میں جو دوسرے پول کے لئے جو وقت دیا گیا ہے، چوبیس گھنٹے میں کسی بھی ملک کے کونے سے پہنچا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ایسا کرتے ہیں کہ چوہدری پرویز الاہی اور حمزہ شہباز کو ویڈیو لنک پر بلالیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ لاہور میں دو اجلاس چل رہے۔چیف جسٹس نے کہا کہ دونوں کو بلالیتے ہیں، اس معاملے میں کوئی بھی جزباتی نہ ہوں۔یہ انا کا نہیں ملک و قوم کا مسئلہ ہے۔

چیف جستس نے پرویز الاہی اور حمزہ شہباز کو روسٹرم پر آنے کی ہدایت کر دی۔کہا کہ ہمارے سامنے جو اشو ہے اس پر وقت زیادہ نہیں دیا گیا، اس کی مختلف وجوہات ہیں،عدالت خود سے وقت دیتی ہے تو حکومت کون چلائے گا۔چیف جسٹس نے پوچھا کہ واپس آنے کے بعد بتایا گیا کہ وقت دیا جائے تو حمزہ شھباز کام جاری رکھ سکتے ہیں۔ کیا یہ بات دررست ہے ؟

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ اس وقت سب کی نظریں اس معاملے پر ہیں، اس کو آئین اور جمہوری روایات کے مطابق حل ہونا چاہیے، ہائیکورٹ نے چار ججز نے کہا کہ حمزہ صاحب کام جاری رکہیں لیکن ان کا الیکشن صحیح نہیں، اس پر بحث ہو سکتی ہے، لیکن ملک کو ایسی صورتحال میں نہیں ڈال سکتے جس سے لوگوں کا کام نہ ہو ، آپ کی طرف سے آنے والی سفارش پر ہمیں لگا کہ آپ اس پر سوچیں، جب صاف شفاف الیکشن میں جس کی اکثریت ہو وہ وزیر اعلی بن جائے گا، اگر یہ صورتحال رہی تو کیا ہوگا۔

پرویز الہی نے کہا کہ میرے خیال میں ہاوس سترہ تریخ تک مکمل ہوگا۔۔ اس وقت تک ساری عمل مکمل ہوجائے تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کیا اس وقت تک حمزہ شہباز شریف وزیراعلی رہنے کو آپ مانتے ہیں؟ پرویز الہی نے کہا کہ امیں ایسا نہیں مان سکتا وہ اپنے عہدے پر نہ رہیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ پھر ہم آئینی راستہ اختیار کریں گے جس سے آپ دونوں کا نقصان ہوگا۔

پرویز الہی نے کہا کہ عدالت یہ حکم دیں کہ ہم آپس میں طہ کریں جس حل پر دونوں راضی ہوں، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ یہ کام آپ عدالت آنے سے پہلے کرکے آجاتے نا چوہدری صاحب۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ عدالت کا احترام۔کرتا ہوں۔ اور یہ کہنا چاہتا ہوں کہ شخص اہم نہیں نظام اہم ہے، قوم نے دیکھا کہ ڈپٹی اسپیکر پر حملہ ہوا، ہمارے پاس عددی اکثریت موجود ہے۔آج الیکشن ہونے دیا جائے جب سترہ کو بیس سیٹیوں پر الیکشن ہوگا تو پہر عدم۔اعتماد کی تحریک لاسکتے ہیں۔

ہم نے اپنے لوگوں کو حج پر جانے سے روکا، انہوں نے اپنے بندوں کو کیوں نہیں روکا، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ آپ کو پرویز الہی کا پروپوزل منظور نہیں، آج جو چار بجے اجلاس ہونا تھا وہ اب نہیں ہوگا کیونکہ چار بج چکے ہیں، آپ کو مزید وقت دے سکتے ہیں۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ اگر سترہ تک کوئی بھی وزیر اعلی نہ رہ تو نظام کیسے چلے گا ، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ایسی صورت میں ہم گورنر کو ہدایت کرسکتے ہیں کہ وہ نظام چلانے کے اقدامات کرے، اگر ہم مزید وقت دیں تو آپ وزیراعلی نہیں رہیں گے، دوسرے الیکشن کے مطابق آپ کو دوبارہ اکثریت ثابت کرینگے۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ اس کا بہتر حل ہے کہ آج رات بارہ بجے تک الیکشن کرائے جائیں۔ جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہائیکورٹ نے ایک ریزن ایبل وقت دیا ہے، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ لیکن اب جو وقفہ ایا ہے اس کے لئے وقت دینا چاہیئے ۔

حمزہ شہباز نے کہا کہ یہ معاملہ اسی فورم پر حل ہونا ہے عدالت جو فیصلہ دے۔

پرویز الہی نے کہا کہ ہمارے آنے کا سبب یہ ہے کہ ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف پیش ہوئے ہیں، سترہ جولائی کے بعد تک کا وقت مل جائے تو بہتر ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم دیکھیں کے قانون کے مطابق یہ الیکشن فوری ہو، ہائوس پورا ہو یا پھر، ہمیں سترہ تک کا وقت دینا مناسب نہیں سمجھتا ہوں، اگر حمزہ شہباز یہ کہیں کہ سترہ کو الیکشن کریں لیکن اس دوران حمزہ شہباز وزیر اعلی رہیں گے۔

پرویز الہی نے کہا کہ ہم آپکی بات ماننے کو تیار ہیں۔۔لیکن اس مسئلے کو مل بیٹھ کر حل کریں، جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ وہ مل بیٹھ کر حل نکالنا نہیں چاہتے، وہ رن آف الیکشن کی بات کررہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ مجھے سترہ تک وزیر اعلی رہنے دیں، ہم آپ کو کچھ وقت دیتے ہیں اس پر عدالتی فیصلے کے مطابق الیکشن کرائیں، پرویز الہی آپ کے پاس دو آپشن ہیں کہ حمزہ شہباز کو سترہ تک وزیر اعلی مانیں یا پھر اس سے پہلے جو وقت دیتے ہیں تو اس دوران الیکشن کریں۔

پرویز الہی نے جواب دیا کہ اگر ہم ان کو سترہ تک وزیر اعلی مانتے ہیں تو اس پہلے وہ ہمارے ساتھ بیٹھ کر مسائل حل کریں اور پکڑ دھکڑ نہ کریں۔ جسٹس اعجازالحسن نے کہا کہ ہم۔حکم۔دینگے کہ کوئی پکڑ دھکڑ نہ ہو۔

پرویز الہی نے کہا کہ ہم مانتے ہیں کہ وہ سترہ تک وزیر اعلی رہیں لیکن وہ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے ساتھ بیٹھ کر مذاکرات کریں۔ جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ آپ دونوں فریقین رول آف لا قائم نہیں کرینگے اور اپنی مرضی چلائینگے تو کچھ بہتر نہیں ہوگا۔۔ جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ الیکشن کمیشن کا اختیار ہے کہ انتخابات کا اعلان ہوتو کوئی تقرری اور تبادلہ نہ ہو۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ضروری نہیں اس وقت کہ کمپرومائیز نہ ہو، آپ دونوں بیٹھ جائیں اس کا کوئی قانونی حل نکالتے ہیں۔

پرویز الہی نے کہا کہ میں مانتا ہوں کہ حمزہ شھباز سترہ تاریخ تک قائم مقام وزیر اعلی رہیں۔

وقفے کے بعد سماعت کے دوبارہ آغاز پر پی ٹی آئی کے وکیل امتیاز صدیقی نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم اس نکتے پر راضی ہیں کہ حمزہ شہباز وزیر اعلیٰ کے عہدے پر کام جاری رکھیں اور اس بات پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب سے اتفاق ہوا ہے۔

پرویز الہیٰ نے کہا کہ اسپیکر ہوتے ہوئے حمزہ شہباز کو لیڈر آف اپوزیشن مانا اور ان کی رہائی کے آرڈر جاری کیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ کا اس نکتے پر راضی ہونااچھی بات ہے اور میں اللہ کا شکر ادا کرتا ہوں کہ دونوں فریقین راضی ہو گئے ہیں۔ بابر اعوان آپ بتائیں کیا بات ہوئی؟

بابر اعوان نے عدالت کو بتایا کہ اسد عمر اور دیگر کے ساتھ پنجاب میں پارلیمانی لیڈر اور امیدوار سے بھی بات ہوئی۔ ہمیں عبوری طور پر اس پر کوئی اعتراض نہیں کہ حمزہ شہباز کام جاری رکھیں۔ عمرن خان چاہتے ہیں عدالت آئی جی اور چیف سیکرٹری پنجاب کو قانون کے مطابق عمل کی ہدایت کرے۔

انہوں نے کہا کہ اس دوران حکومت کوئی بھی فنڈز اور اختیارات استعمال نہیں کرے گی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ بیورو کریسی اور الیکشن کمیشن کوڈ آف کنڈیکٹ پر سختی سے عمل در آمد کرے اور آپ کو آپریشنل صورتحال پر اعتراض ہے کہ تنگ نہ کیا جائے۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ عدالت ایسا حکم دے گی جو سب کو قبول ہو گا۔ عدالتیں کھلی ہیں جس کو کوئی مسئلہ ہو تو وہ عدالت آسکتا ہے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نہیں چاہتے کہ آپ دوبارہ ہمارے پاس آئیں۔

بابر اعوان نے کہا کہ ہم بھی اس معاملے میں نہیں آنا چاہتے لیکن دوسرے کیسز میں آئیں گے۔ وہاں سب کو بلا کر بٹھایا جا رہا ہے، اس صورتحال کو عدالت دیکھے۔

چیف جسٹس نے حمزہ شہباز سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ کا ارادہ ہے کہ انتخابات میں کسی کو ہراساں اور دھاندلی کریں؟ جس پر حمزہ شہباز نے کہا کہ میرا ایسا کوئی اردہ نہیں، میں ایک سیاسی کارکن ہوں۔


متعلقہ خبریں