گورکھ ہل اسٹیشن، سندھ کا پر فضا اور حسین مقام


پاکستان کی خوبصورتی پر بات ہو تو پنجاب یا خیبر پختونخوا ذہن میں آتے ہیں لیکن وطن عزیز کے طول و عرض میں درجنوں تاریخی اور حسین قدرتی مقامات موجود ہیں، بس دیکھنے والی آنکھ چاہیئے۔

ایسی ہی ایک جگہ گورکھ ہل اسٹیشن ہے جسے سندھ کا مری یا نتھیا گلی کہیں تو بے جا نہ ہو گا۔

کراچی سے 450 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع یہ ہل اسٹیشن سندھ کے لیے قدرت کا انمول تحفہ ہے۔ یہاں گرمیوں میں بھی سرد ہوائیں چلتی ہیں جن کی رفتار 4 سے 14 میل فی گھنٹہ ریکارڈ کی گئی ہے جب کہ درجہ حرارت 20 سے 25 کے درمیان رہتا ہے اور جنوری اور فروری میں عموماً برف باری بھی ہوتی ہے۔

اگرچہ کراچی سے دس بارہ گھٹے کا سفر تھکا دینے والا ہوتا ہے مگر چاروں اور ٹھنڈی ہوا کے ہلکورے، آلودگی سے پاک آب و ہوا اور خوبصورت قدرتی مناظر مسافر کی ایک ایک پور سے تھکن نچوڑ لیتے ہیں۔ اس علاقے میں دن کی خوبصورتی اپنی جگہ دل کو چھوتی ہے تو رات کا پرشکوہ نظارہ نگاہوں کو مزید مبہوت کر دیتا ہے۔ ستاروں کی چادر سے ڈھکا آسمان دیکھ کر یوں لگتا ہے جیسے کسی نے نیلے رنگ کی ردا میں بے شمار جگنو جڑ دیئے ہوں۔ بے نظیر ویو پوائنٹ ہل اسٹیشن کا سب سے اونچا مقام ہے جہاں سے طلوع و غروب آفتاب کے مناظر دیکھنے کے لائق ہوتے ہیں۔

2400 ایکڑ رقبے پر مشتمل کورگھ ہل اسٹیشن سندھ کے ضلع دادو اور بلوچستان کے ضلع خضدار کی صوبائی سرحد بھی بناتا ہے۔ اس پہاڑی سلسلے کی 1340 ایکٹر زمین سندھ جب کہ 1060 ایکڑ بلوچستان میں ہے۔ یہاں پہچنے کے لیے پہلے کراچی سے بذریعہ بس دادو جانا پڑتا ہے جبکہ باقی سفر جیپ کے ذریعے کیا جاتا ہے۔ ضلع دادو سے کورگھ ہل تک کا سفر تقریبا ڈھائی گھنٹے پر محیط ہے۔ سڑک انتہائی پرخطر اور تنگ ہے جس پر ایک وقت میں ایک گاڑی ہی گزر سکتی ہے۔ ایک طرف اونچے پہاڑ تو دوسری جانب گہری کھائی ہے۔ ہر موڑ پر یوں محسوس ہو تا ہے جیسے ابھی گاڑی کھائی میں چلی جائے گی۔ یہ راستہ سندھ حکومت کی شدید عدم توجہی کا شکار ہے۔

اسی راستے میں دادو کی مشہور وادی ”واہی پانڈی” بھی آتی ہے جس کی اپنی ایک اہمیت ہے۔ گورکھ ہل کے کھانے بھی اپنی مثال آپ ہیں۔ دوسری جانب اس سے متصل اینگڑ چشمہ اور گج ندی یہاں کی کشش میں اضافہ کردیتے ہیں۔

لفظ ”گورکھ” کے حوالے سے بہت سی کہانیاں اور روایات مشہور ہیں۔ بعض مقامی افراد کے مطابق اس کا نام ایک ہندو جوگی سری گورکھ ناتھ جی سے منسوب ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق گورکھ سنسکرت زبان کا لفظ ہے جس کے معنی گائے، بکریاں یا بھیڑیں چرانا ہے۔ مقامی افراد اپنے مویشی یہاں چرانے کے لیے لاتے تھے اس وجہ سے اس کا نام گورکھ رکھ دیا گیا۔ اسی طرح ایک کہانی کے مطابق اس مقام کا نام پہلے گرکھ تھا پھر گورکھ ہوا۔ گرکھ کے معنی بھیڑیے کے ہیں جو ماضی میں یہاں بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ سندھی زبان میں لفظ ”گورکھ” کے معنی مشکل اور دشوار گزار راستوں کے ہیں اور زیادہ تر لوگ اسی مفہوم سے متفق ہیں۔

اگر حکومت سندھ توجہ دے تو یہ ایک مقبول تفریحی مقام بن سکتا ہے اور سیاحوں کی ایک بڑی تعداد یہاں آ سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں