ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس: فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا مسترد

نسلہ ٹاور (nasla tower)

سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر رولنگ کیس میں حکومتی اتحاد کی فل کورٹ بنچ بنانے کی استدعا مسترد کر دی۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کے خلاف چوہدری پرویز الہی کی درخواست پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطاء بندیال کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے آج سماعت کی، جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منیب اختر بھی بینچ میں شامل ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کے وکیل عرفان قادر اور پرویز الہٰی کی طرف سے وکیل علی ظفر عدالت میں پیش ہوئے۔

وکلا کے دلائل مکمل ہونے کے بعد کیس کی سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی گئی۔

بعد ازاں سپریم کورٹ  نے فل کورٹ بنانے کی تمام درخواستیں مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ پر کیس کی سماعت کل صبح ساڑھے گیارہ بجے ہو گی۔

 آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور 179 لینے والا وزیراعلی ہے، چیف جسٹس

کیس کی دوبارہ سماعت کے آغاز پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے معاملے کا جائزہ لیا ہے، وکلاء میرٹ پر دلائل دینا شروع کریں، ابھی ہم سب کو سنیں گے،اس کے بعد دیکھیں گے۔

ڈپٹی اسپیکز پنجاب کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ  اس طرح تو نہیں ہوگا،میری ہدایات فل کورٹ کی تھیں، کیا میں مزید بات کرسکتا ہوں یا نہیں،اس پر ہدایات لینے کا وقت دیا جائے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چوبیس گھنٹے یہاں بیٹھے ہیں، آپ اپنی ہدایات لے لیں۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ن لیگ اور وزیر اعلیٰ پنجاب نے فل کورٹ کی استدعا کی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ فل کورٹ کے معاملے پر ہم آپ کو مزید سننا چاہتے ہیں، اس حوالے سے ہم نے سب کے دلائل سننے ہیں،میرٹ پر سننے کے بعد فیصلہ کرینگے کہ فل کورٹ بنے گا یا نہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ حمزہ شہباز کی جانب سے یہ واضح ہدایات ہیں کہ فل کورٹ بنے۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی کی درخواست سماعت کیلئے رکھتے ہیں تو آپ کامیاب ہوجاتے ہیں۔ جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ کیا یہ فورم شاپنگ ہے؟

چیف جسٹس نے کہا کہ  ہم اس لئے اٹھ کر گئے تھے کہ اس پرسوچیں ،یہ سنجیدہ معاملہ ہے۔ یہ معاملہ عدلیہ کی آزادی کا بھی ہے، ہم نے پیچیدہ آئینی معاملات کو دیکھنا ہے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ اعظم نذیر تارڑ صاحب آپ جو بات کررہے ہیں وہ آپ کی استدعا ہی نہیں ہے۔ جس پر اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ  بڑے صوبے کا وزیر اعلی چاہے کوئی بھی ہو اسے گھر نہیں بھیجنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے ایک وزیر اعظم کو گھر بھیجا ہے، وہ پانچ رکنی بنچ تھا۔ اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ میں معذرت کرتا ہوں سر۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ آپ نے تو اس معاملے پر مٹھائیاں بانٹی تھیں،آج تک جن معاملات پر فل کورٹ بنا ہے وہ انتہائی سنجیدہ تھا۔

ڈپٹی اسپیکر پنجاب کے وکیل عرفان قادر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اگر آپ لارجر بینچ پر دلائل سننا چاہتے ہیں تو میں حاضر ہوں، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والا کیس10 رکنی بنچ نے سنا تھا،میرے بولنے پر آپ کو ناراضگی ہوئی ہے جو نہیں ہونی چاہئے تھی، ہم فل کورٹ اس لئے کہہ رہے ہیں کہ جو قانونی سوالات ہیں ان کا جواب آنا چاہئے۔ فل کورٹ کے لئے درخواست گزار کی جانب سے کوئی بات نہیں کی گئی، عدالت نے ساڑھے 11بجے لاہور میں مختصر حکم نامہ دیا،میرے موکل نے ساڑھے12بجے رابطہ کیا، لیکن بینچ نے لکھا کہ میں تیار نہیں تھا، میں تیار ہونہیں سکتا تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آج ہم نے یہ سماعت اس لیے رکھی ہے کہ آپ تیاری کرسکیں۔

وکیل ڈپٹی اسپیکر عرفان قادر نے کہا کہ میں نے تیاری کی ہے، میں اپنے جواب کے ساتھ آیا ہوں،میری کوشش تھی کہ میں آپ کی بھرپور معاونت کروں،مگر آپ نے گزشتہ فیصلے میں لکھا کہ میں نے معاونت نہیں کی،تیاری میری آج بھی ہے لیکن زیادہ بہتر تیاری سے اس بینچ کے سامنے آنا چاہتا ہوں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اتنا بتا دیں کیا پارٹی ہیڈ ہدایات دے سکتے ہیں یا نہیں ؟اس پر بات کریں، عرفان قادر صاحب آپ کے دلائل کو منصور اعوان نے اپنایا،ہم نے سوچا ہے کہ فل کورٹ اس وقت بنایا جاتا ہے جب معاملہ پیچیدہ ہو۔

جس پر عرفان قادر نے جواب دیا کہ کیا یہ پیچیدہ معاملہ نہیں ؟ چیف جسٹس نے کہا کہ نہیں یہ پیچیدہ معاملہ نہیں، ہماراا س معاملے پر فیصلہ آچکا ہے، اس کو معاملے کو لمبا نہیں چھوٹا کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے وفاقی حکومت کے کیس میں ازخود نوٹس لیا، اس میں ہماری نظر میں ڈپٹی اسپیکر نے آئین کی خلاف ورزی کی تھی۔

وکیل ڈپٹی اسپیکر عرفان قادر نے کہا کہ میری کوشش ہے کہ عدالت کا وقت بچاو۔مخالف فریق کے وکیل نے جو فیصلوں کے حوالے دیئے ہیں ان کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔نظرثانی کی درخواست میں منحرف ارکان کے ووٹ گنے جاسکتے ہیں تو پھر منظر نامہ تبدیل ہوسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کی یہ بات لکھ لیتے ہیں۔ عرفان قادر نے کہا کہ ہر معاملے پر ایک ہی بینچ بننے کے بارے میں سوشل میڈیا پر بات ہورہی ہے، اگر یہ بینچ کیس سنتا ہے تو تمام فریقین کو عزت ملنی چاہئے،بینچ کی نیوٹرلٹی پر کوئی ابہام نہیں،لیکن اگر ابہام ہو تو اس کو فل کورٹ بناکر ختم کیا جاسکتا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اُس کیس میں دن اور شام کو سماعت کرکے چار دن میں فیصلہ سنایا، عدالت نے اس کیس میں کوئی از خود نوٹس نہیں لیا۔

عرفان قادر نے کہا کہ ایک ایسی پارٹی جو اپنے امیدوار کو ڈاکو کہتی تھی ، وہ اب اس کے ساتھ ہے، چودھری شجاعت ملک کے بہترین سیاستدان ہیں، وہ اپنا موقف عدالت کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔ اس میں خدارا جلدی نہ کریں۔ آپ یہ سمجھتے ہیں کہ سیاستدان ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے نہیں ہوسکتے،آپ بھی ایک پلیٹ فارم پر اکٹھے ہوں تو بہتر ہوگا۔

وکیل ڈپٹی اسپیکر عرفان قادر کے دلائل مکمل ہونے کے بعد یپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے دلائل شروع کئے۔

انہوں نے استدعا کرتے ہوئے کہا کہ معاملہ چند دنوں میں حل ہوسکتا ہے، میں رات کو ہی کراچی سے آیا ہوں، تیاری کے لئے وقت دیں، اس کیس کو روٹین کے مطابق رکھ لیں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ آپ 63 والے کیس میں پیش ہوئے، میرا خیال ہے اس کا فیصلہ پڑھ لیا تھا،ہمیں آپ کی گائیڈینس کی ضرورت ہے، آپ پارلیمنٹری کمیشن کے سربراہ اوروزیر قانون رہے ہیں، ہمارے پاس 54 ہزار کیس التوا کا شکار تھے، اب وہ کم ہوکر 51 ہزار پر پہنچے ہیں،ہمارے ججز محنت کررہے ہیں، چھٹیوں میں بھی کام کررہے ہیں، سوشل میڈیا پر حقائق دیکھے بغیر تنقید کی جاتی ہے لیکن ہمیں اس کی پرواہ نہیں ہے، ہم آپ لوگوں کو سنیں گے، حکومتوں کو آئین کے مطابق بننا چاہئے لیکن سوال ہے کہ ووٹ کیسے گنے جائیں۔

جس پر وکیل ڈپٹی اسپیکر عرفان قادر بولے کہ ایسا لگتا ہے کہ عدالت دباو میں ہے، یہ نہ سمجھیں کہ میں سپریم کورٹ کی بے توقیری کر رہا ہوں،میرے لیے بھی یہ عدالت اتنی ہی محترم ہے جتنی آپ کیلئے۔

چیف جسٹس نے پیپلز پارٹی کے وکیل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ فاروق نائیک صاحب آپ کے ساتھی نے عدالت میں پارٹی میں آمرانہ سوچ کی بات کی تھی، آپ اٹھارویں ترمیم ختم کرنے والوں میں شامل تھے، آپ نے اختیارات پارلیمانی پارٹی کو دیئے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ اس کیس میں پارلیمانی پارٹی کی کوئی ہدایات نہیں،ہم نے دیکھنا ہے کی پارلیمانی پارٹی کے اختیار پر پارٹی سربراہ نے تجاویز کیا، یہ دیکھنا ہے کہ کیا پارلیمانی پارٹی کو پارٹی سربراہ چلاتا ہے،بورس جانسن کو پارلیمانی پارٹی نے نکالا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے کس بنیاد پر ووٹ مسترد کیے؟دیکھنا ہے کیا ڈپٹی اسپیکر نے عدالتی فیصلے کو غلط طریقے سے لیا۔

پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے استدعا کی کہ سماعت جمعرات کو رکھ لیں جس پر جسٹس اعجازالاحسن نے ریمارکس دیئے کہ یہ بات پہلے بھی کہی گئی تھی۔

چودھری شجاعت کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا کہ میں نے فریق بنانے کی درخواست دی ہے،  میں اس میں نئے دستاویز فائل کرونگا۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ جو ہمارے فیصلے پر انحصار کرتی ہے ہم نے اس کو دیکھنا ہے۔

وکیل چودھری شجاعت نے کہا کلہ کچھ ایسےحقیقی سولات ہیں جو عدالت میں اٹھائے گئے اس کا جواب دینا ضروری ہے، اس میں پارلیمنٹری پارٹی کی ڈائریکشن کا معاملہ ہے۔عدالت کے کچھ ایسے فیصلے ہیں جن کو یہاں بیان کرنا ضروری ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ایک پارلیمانی پارٹی میں تمام ارکان کی اہمیت ہوتی ہے، پارلیمانی پارٹی میں پارٹی سربراہ کی آمریت نہیں ہونی چاہئے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ اصل فیصلہ پارٹی سربراہ کا ہی ہوتا ہے قائد کوئی بھی ہو۔ جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ سپریم کورٹ کے ججز کے درمیان بھی فیصلوں میں الگ رائے ہوتی ہے ،چیف جسٹس ماسٹر آف روسٹر ہوتے ہیں۔

چیف جسٹس بولے کہ ایک پہلو جو اہم ہے وہ پولورائیز سیاسی ماحول بن جانا ہے،ایسے ایشوز کو حل ہونا چاہئے تا کہ حکومتیں اپنا کام کرتی رہیں، اگر اپوزیشن بائیکاٹ کرتی ہے تو ہم امید کرتے ہیں کہ نظام چلنا چاہئے۔

بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ فل کورٹ کی بصیرت سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ بار بار فل کورٹ کا ذکر کیوں کر رہے ہیں؟آپ 8 ججز کے فیصلے کا حوالہ دے رہے تو 9 ججز بھی سماعت کرسکتے ہیں، آپ اکیسویں ترمیم کیس کا حوالہ دے رہے ہیں، یہ دیکھیں اکیسویں ترمیم میں فیصلہ کس تناسب سے آیا تھا؟بینچ کے رکن جتنے بھی ہوں فیصلے کا تناسب بدلتا رہتا ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ آپ خود سے پوچھیں کہ آئین کے مطابق کون ہدایات دے سکتا ہے؟ بیرسٹر صلاح الدین بولے کہ مجھے سو فیصد آپ سمیت سب ججوں پر اعتماد ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ دو ججز کے علاوہ تمام ججز یہاں موجود ہیں۔ ہر شہری کی طرح معیشت کی صورتحال سے ہم بھی پریشان ہیں۔ کیا معیشت کا یہ حال عدالت کی وجہ سے ہے یا عدم استحکام کی وجہ سے؟

انہوں نے کہا کہ آج زیادہ ووٹ لینے والا باہر اور 179 لینے والا وزیراعلی ہے، حمزہ شہباز کو وزیراعلی برقرار رکھنے کیلئے ٹھوس بنیاد درکار ہے،ریاست کے کام چلتے رہنے چاہیں۔عدالت کے فیصلے پر انتخابات ہوئے اور پر امن طریقے سے ہوئے، ہمیں یہ ڈھونڈ کر دے دیں کہ کہاں لکھا ہے کہ پارٹی ہیڈ غیر منتخب بھی ہو تو اس کی بات ماننا ہوتی ہے۔ فل کورٹ ستمبر میں ہی بن سکے گا کیا اس وقت تک سب کام روک کے رکھیں؟

شجاعت حسین کے وکیل نے کہا کہ  عدالت مختلف مقدمات میں پارٹی ہیڈ کے بارے میں فیصلے دے چکی ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ہم نے یکم جولائی کو فیصلہ دیتے ہوئے بھی موجود وزیراعلیٰ کو کام سے نہیں روکا تھا،الیکشن کے نتائج کا احترام ہونا چاہیے۔آپ کہہ رہے ہیں پارٹی ہیڈ کا کنٹرول ہوتا ہے۔ وکیل چودھری شجاعت حسین نے کہا کہ ہم کیس کو بالکل طویل نہیں کرنا چاہتے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوشش کر رہے ہیں عدالت آنے والوں کو سہولیات دی جائیں۔ بیرسٹر صلاح الدین نے کہا کہ امریکہ میں ججز سیاسی جماعتیں اور حکومت تعینات کرتی ہیں،شکر ہے پاکستان میں ایسا نظام نہیں ہے۔ فاضل بینچ رات کے 7 بجے بھی موجود ہے تو باقی ججز بھی خوشی سے اپنی ذمہ داری نبھائیں گے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ججز دستیاب نہیں ہیں۔ وکیل چودھری شجاعت نے کہا کہ جو ججز دستیاب ہیں وہ بھی بیٹھ کر فیصلہ کر سکتے ہیں۔ چیف جسٹس نے کہا کہ ہم تین ججز کے علاوہ صرف دو مزید ججز شہر میں ہیں۔

وکیل صلاح الدین نے کہا کہ وڈیو لنک کے ذریعے بھی ججز شریک ہو سکتے ہیں، جس پر چیف جسٹس عمرعطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ وڈیو لنک شکایت کنندگان کی سہولت کے لیے ہے، وزیراعلیٰ کے انتخاب کا جو نتیجہ آیا اس کا احترام کرنا چاہیے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ جن مقدمات کی آپ بات کررہے ہیں ان میں مدعا کچھ اور تھا۔  آپ کے دلائل بظاہر غیر جمھوری ہیں آپ اپنے اراکین کو ڈمی سمجھتے ہیں۔

اس سے پہلے کارروائی کے آغاز پر چیف جسٹس نے کہا کہ ہم بھی دیکھ رہے ہیں کئی صدور یہاں موجود ہیں، سابق صدر بار لطیف افریدی نے کہا کہ ملک میں کرائسز بڑھتے جارہے ہیں، پارلیمنٹ اور یہ عدالت ملکی نظام کا حصہ ہے،ہماری درخواست ہے کہ فل کورٹ بناکر سماعت کی جائے، ہم اس معاملے پر چیمبر میں ملنا چاھتے تھے۔

چیف جسس نے کہا کہ ہمارے چیمبر آپ کے لئے کھلے ہیں، یہ کیس ہمارے فیصلے سے متعلق ہے اور ہم اسے سننے کے لیے یہاں ہیں ، آپ اپنی نشست لیں ہم ان دونوں معاملات کو دیکھتے ہیں۔

صدر بار احسن بھون نے کہا کہ ہم عدالت کے ساتھ ہیں ان کی مدد کرنا چاھتے ہیں، ہماری نظرثانی درخواستیں اپ کے پاس موجود ہیں ان کو سنا جائے۔

یہ بھی پڑھیں: میچ فکسنگ کی طرح بینچ فکسنگ بھی جرم ہے، مریم نواز

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم چاھیں گے کہ فریقین ہماری معاونت کریں۔ بیرسٹر علی ظفر نے کہا کہ میں بھی سابق صدر ہوں، پہلی بار دیکھ رہا ہوں کہ سارےسابق صدور آئے ہیں یہ ایک اچھا عمل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سارے صدور کیس کی گرویٹی کو بڑہانا چاھتے ہیں۔ کچھ پارٹیوں کی طرف سے فریق بننے کہ درخواستیں آئی ہیں ان کو نمبر نہیں لگایا جارہا ہے۔

جسٹس اعجازلا حسن نے کہا کہ ہم کہ دینگے کہ ان کو نمبر لگا دیں۔۔زرا کیس کو سیٹ اپ ہونے دیں۔وکیل پیپلز پارٹی فاروق نائیک نے کہا کہ ہمیں درخواست واپس کردی ہے نمبر لگانے کا حکم دیں۔

چیف جسٹس نے جواب دیا کہ آپ بیٹھ جائیں ، کیا آپ نے میوزیکل چیئر کی گیم کھیلی ہے ، فاروق نائیک نے کہا کہ کرسی آنی جانی ہے انسان کو ڈٹے رہنا چاہیے۔

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ڈپٹی اسپیکر کے وکیل صاحب ہیں ؟ عرفان قادر کہا کہ میں عدالت کی معاونت کروں گا۔

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ ملکی لارجر انٹریسٹ میں یہاں عدالت میں پیش ہوا ہوں۔ معاملہ اہم آئینی معاملات کا ہے جو ہمارے لئے بھی اہم ہے، اس معاملے پر استدعا ہے کہ فل کورٹ بنایا جائے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے اپنی نکات بنائے ہیں جو فل کورٹ کی تشکیل کے بارےمیں ہوں؟ عرفان قادر نے کہا کہ جی میں نے نکات بنائے ہیں۔ میں اپنے دلائل وہاں سے شروع کروں گا جہاں ہفتے والے دن سماعت کے دوران ختم کئے تھے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ اپ کا سوال ہے کہ ارٹیکل 63 اے سے متعلق ہے، عرفان قادر نے کہا کہ آپ نے آرٹیکل 184/3کی درخواست پر آرٹیکل 63اےپر فیصلہ آیا ، اگر پارٹی ہیڈ کا کوئی اور موقف اور پارٹی کے ارکان جو ایوان میں ہیں ان کا موقف الگ ہے ، یہ سوال آپ کے سامنے ہے۔

عرفان قادر نے دلائل شروع کرتے ہوئے کہا یہ کیس نیشنل امپارٹنس کا ہے، یہاں ساری پارٹیاں موجود ہیں۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہمارے فیصلے میں میرے مطابق عدالتی فیصلے میں کوئی ابہام نہیں، عرفان قادرنے کہا کہ آپ کے فیصلے میں ابہام ہے، آپ درخواست گزار سے بھی پوچھیں کہ ان کا کیا سوال ہے۔

یہ بھی پڑھیں: فل کورٹ بینچ کا مطالبہ ، 3 افراد ملک کی تقدیر کا فیصلہ نہیں کر سکتے، بلاول بھٹو

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ آپ بار بار بول رہے ہیں ہماری بات بھی سنیں،اگر ہماری بات نہیں سننی تو کرسی پر بیٹھ جائیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ آپ چیف جسٹس ہیں وکیلوں کو ویسے بھی ڈانٹ پلا سکتے ہیں۔لیکن آئین میں انسان کے وقار کی بات کی گئی ہے وہ بھی سامنے رکھیں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہم اپ کو محترم کرکے بلا رہے ہیں۔

ڈپٹی اسپیکر کے وکیل نے کہا کہ کہ سپریم کورٹ کے فیصلے میں کہا گیا کہ پارلیمانیٹری پارٹی لیڈر کو فیصلے کا حق ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ یہ ایک قانونی سوال ہے جب تک ہم ایک پیج پر نہیں ہونگے تب تک ایک دوسرے کو سمجھ نہیں سکیں گے ۔

عرفان قادر نے کہا کہ میں کوشش کر رہا ہوں کہ میں اس سوال کو سمجھوں ، اس کیس میں سب کی نظریں سپریم کورٹ کی طرف لگی ہیں، آپ درخواست گزار سے سوال پوچھ لیں شاید وہ آ کو واضح کر دے کہ سوال ہےکیا۔

ججز نے عرفان قادر کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ اگر آپ نے اب عدالت کو نہ سنا تو آپ کو واپس اپنی نشست پر بھیج دیں گے۔

عرفان قادر نے کہا کہ عدالت تسلی رکھے ہم لڑنے نہیں، بلکہ عدالتی معاونت کرنے آئے ہیں، عدالت ہم سے ناراض نہ ہو جو بھی سوال پوچھا جائے گا وہ بتائیں گے۔

عرفان قادر سپریم کورٹ کے فیصلے کا پیرا ایک پڑھ رہے ہیں، آئین میں پارلیمنٹری پارٹی کا ذکر کیا گیا، اس پر تفصیل سے بات کرونگا، جسٹس منیب اختر نے کہا کہ پہلے آپ مکمل پڑھ لیں اس کو سنیں گے۔

عرفان قادر  نے کہا کہ آپ نے اپنے فیصلے میں آرٹیکل 63 کا مقصد سیاسی پارٹیوں کے مفادات کو تحفظ قرار دیا ہے۔

عدالت نے حمزہ شہباز کے وکیل منصور اعوان کو روسٹرم نے پر طلب کرلیا، وکیل منصور اعوان نے بتایا کہ میں نے اپنا جواب جمع کرادیا ہے ۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ فیصلے کے کونسے حصے پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا اس کا بتائیں، منصور اعوان نے کہا کہ فیصلے کے پیرا گراف تین پر ڈپٹی اسپیکر نے انحصار کیا ہے۔ عدالت کے سامنے سوال ہے کہ پارلیمنٹری پارٹی کا کردار پارٹی ہیڈ کے ہوتے ہوئےکیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 14ویں ترمیم میں آرٹیکل 63اے شامل کیا گیا ہے، آپ کا سیاسی پارٹی کے سربراہ کے بارے میں کیا قانونی دلائل ہیں، آپ کے دلائل سے یہ سمجھا ہوں کہ ووٹنگ دینے کے عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔

منصور اعوان نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کے ذریعے آرٹیکل 63 اے میں مزید وضاحت کی گئی ہے، جسٹس شیخ عظمت سعید کے 8 رکنی فیصلہ کے مطابق پارٹی سربراہ ہی سارے فیصلہ کرتا ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ پارٹی کی ہدایت اور پارٹی سربراہ کی ہدایات دو الگ چیزیں ہیں۔ جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ایک اہم اور سنجیدہ ایشو ہے اس معاملے میں آپ کے پہلے دلیل میں کہا کہ 8 میمبرز بنچ کا فیصلہ موجود ہے۔

منصور اعوان نے کہا کہ عدالت کا فل کورٹ اس کیس کے میریٹ کو دیکھے، آئین میں جو الفاظ ہیں اس پر غور کرنا ہوگا۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ہر بار بنچ اگر نمبر کے حساب سے دکھیں تو وہ اشو نہیں ہوتا۔

وکیل نے کہا کہ اگر چھوٹا بنچ سمجھتا ہے کہ بڑا بنچ بننا چاہیئے تو پھر بڑا بنچ بن سکتا ہے ، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم آپ کے دلیل سے سمجھیں ہیں کہ ہمارے فیصلے کا پیرا ون ون ٹو ایسا ہے جس پر کچھ ہوسکتا ہے۔ پارٹی کے بنیادی حقوق کی بات کریں تو پھر دو اقسام کا کنٹرول سامنے آرہا ہے، اس پر کسی نے ابھی دلیل نہیں دی۔ ایک طرف پارٹی ہیڈ اپنے اختیارات استعمال کرکے ووٹ استعمال نہیں کرنے دیتا، تو دوسری طرف ارکان ووٹ استعمال کرنا چاہتے ہیں، ہمارے خیال میں ہمارا دیا گیا فیصلہ واضع ہے، مختصر فیصلے میں آپ پارلیمنٹری پارٹی ہیڈ اور پارٹی ہیڈ میں کنفیوژ ہورہے ہیں حالانکہ فیصلہ بڑا واضح ہے ۔

یہ بھی پڑھیں: حکومتی اتحاد اور پی ڈی ایم قائدین کا عدالت عظمیٰ میں فل کورٹ تشکیل دینے کیلئے پٹیشن دائر کرنیکا فیصلہ

چیف جسٹس نے سوال کیا کہ آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ عدالت کے مختصر فیصلے نے ابہام پیدا کئے؟

وکیل منصور اعوان نے دلائل میں پارٹی سربراہ کے عہدے اور اس کے اختیارات پر تفصیلی دلائل پیش کرتے ہوئے مختلف عدالتی فیصلوں کے حوالے دیتے ہوئے کہا کہ آرٹیکل 63 اے پر عدالتی فیصلہ ماضی کی عدلالتی نظیروں کی نفی ہے، سیاسی پارٹی ایک سپر اسٹرکچر ہے۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے فیصلے کے کس حصے کے تحت کاروائی عمل میں لائی میں اس پر اب دلائل دیتا ہوں۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سوال یہ ہے پارٹی اراکین کو ہدایت کیسے دی جاسکتی ہے اس کا طریقہ کیا خط لکھ کر دیا جانا ہے ؟ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اس کیس میں چوہدری شجاعت رکن اسمبلی نہیں ، صورتحال پہلے سے مختلف ہے۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ منحرف ہونے والے عمل میں ایکشن لینے والا پارٹی ہیڈ ہوتا ہے، وہ پارٹی سربراہ ان کے خلاف ریفرنس بھیج سکتا ہے، اس کا ایک اہم کردرا ہے، میرے ذہن میں کلیئر ہے کہ پارٹی میں کون ہدایات دے سکتا ہے کون ڈکلیئریشن دے سکتا ہے

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آرٹیکل 63 کے کچھ زاویے ہیں، وزیر قانون اعظم۔نزیر تارڑ نے کہا کہ میرے پاس کچھ ہدایات ائی ہیں اگر اجازت ہو تو بتا دوں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ اپنے وکیل کو بتا دیں۔، صدارتی ریفرنس میں ہمارے پاس بہت چیزیں سامنے آئی ہیں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ اگر پارلیمنٹری پارٹی کہ طرف سے ہدایت آتی ہے تو وہ اس کا ایسنس ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ صدارتی ریفرنس کی سماعت کے دوران یہ بات ذہن میں آئی کہ جمہوریت کو پارٹی ہیڈ کی آمریت سے پاک رکھنا ہے، پارلیمانی جماعت کو خود مختار ہونا ہو گا، پارٹی ہیڈ کا کردار ضرور اہم ہے، مگر پارلیمانی معاملات میں پارلیمانی پارٹی کا بااختیار ہونا ضروری ہے، پارٹی ہیڈ کی آمریت برقرار رہنے سے موروثی سیاست کا راستہ بند نہیں ہو گا۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ ہمارے سامنے کچھ سوال آئے ہیں، ایک سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے کے جس پیرا کی تشریح کی وہ کیا صحیح ہے ، ڈپٹی اسپیکر نے ہمارے فیصلے پر انحصار کرتے ہوئے رولنگ دی۔ آئین میں پارلیمانی نمائندوں کو اختیارات دیئے گئے ہیں۔ کیا پارٹی کا میمبر پارٹی کہ ہدایات سے ہٹ کر فیصلہ کرسکتا ہے ؟ کیا ڈپٹی اسپیکر نے صحیح تشریح کرکے رولنگ دی؟

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے صحیح تشریح کرکے رولنگ دی، اس سارے عمل میں ڈپٹی اسپیکر کے پاس عدالتی فیصلے پر عمل کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے ارکان پارلیمنٹ سے پارٹی ہیڈز کی ڈیکٹیٹر شپ کے بارے میں سنا ہے، پارلیمنٹری پارٹی کا ایک موقف ہونا چاہیئے، چاہے وہ پارٹی ہیڈ سے انفولینسڈ ہی کیوں نہ ہو، ارکان پارلیمنٹ کی آواز کو دبانے سے بچانے کے لیے پارلیمنٹری پارٹی کا کردار ہونا چاہیے۔
منصور اعوان نے کہا کہ فیصلے میں صرف یہ واضح کیا گیا ہے کہ پارلیمنٹری پارٹی کیا ہے اور اس کا کیا کردار ہے، اسپیکر نے اس فیصلے کا سہارا لیا اور اس کے کچھ حصوں پر عمل کیا۔

جسٹس اعجاز الحسن نے کہا کہ فیصلے میں واضح ہے کہ اگر کسی ارکان پارلیمنٹ نے پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایات کی خلاف ورزی کی تو ووٹ مسترد ہوگا۔

یہ بھی پڑھیں:پریس کانفرنس کرنے والوں کے نام ای سی ایل میں ڈالیں، فواد چودھری کا مطالبہ

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ برطانیہ میں پارلیمان میں کوئی سربراہ نہیں ہوتا، آئین میں واضع ہے کہ ارکان کو پارٹی ہیڈ ہدایات دے گا۔ وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ہمارے وکیل نوجوان ہیں انہوں نے اپنے کندہوں پر بڑا بوجھ اٹھایا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ برطانیہ میں پارلیمان میں کوئی سربراہ نہیں ہوتا، آئین میں واضع ہے کہ ارکان کو پارٹی ہیڈ ہدایات دے گا۔ وزیر قانون اعظم نزیر تارڑ نے روسٹرم پر آ کر کہا کہ ہمارے وکیل نوجوان ہیں انہوں نے اپنے کندہوں پر بڑا بوجھ اٹھایا ہے، چیف جسٹس نے کہا کہ ہم جو سوال کررہے ہیں ، اس سے پریشان نہ ہوں، منصور اعوان بہت اچھے سے دلائل دے رہے ہیں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ یہاں ہمارے پاس گزشتہ معاملے سے ہٹ کر معاملہ آیا ہے، یہاں پر دس ارکان نے ایک امیدوار کو ووٹ دیا کیونکہ پارلیمانی پارٹی کا فیصلہ تھا، الیکشن کمیشن میں جو کیس آیا تھا وہ اس کیس سے الگ تھا، قانون فیکٹس کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ سوال یہ تھا کہ کیا ڈکلیئریشن دیا جاسکتا تھا یا نہیں ؟

چیف جسٹس نے کہا کہ اس فیصلے میں بھی یہ انکار نہیں کیا گیا کہ ہمیں کوئی ہدایات نہیں ملیں، اس کیس میں جو شوکاز نوٹس جاری کئے تھے وہ اسد عمر، کی دستخط سے جاری کئے گئے تھے، انہوں نے اپنے ارکان کے خلاف ایکشن لیا تھا۔ الیکشن کمیشن میں کیس شوکاز جاری نہ ہونے کا تھا، اپیل میں بھی منحرف ارکان نے یہی موقف اپنایا ہے۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ شوکاز نوٹس اسی وقت جاری سکتا ہے جب پارٹی ہیڈ کی دی گئی ہدایات کی خلاف ورزی کی گئی ہو۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ کیا ڈپٹی اسپیکرنے رولنگ دینے سے پہلےچوہدری شجاعت کا خط ہاوس کے سامنے رکھا؟  وکیل کی جانب سے کہا گیا کہ مجھے اس حوالے سے کوئی ہدایات موصول نہیں ہوئیں، وزیرقانون نے روسٹرم پرآکر وکیل سے گفتگو کی جس پر  جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کےموکل حمزہ شہباز ہیں ناکہ وزیرقانون، آپکو ہدایت وزیرقانون نہیں دے سکتے۔

وکیل منصور اعوان نے کہا کہ میں نے کوئی ہدایات نہیں لیں، الیکشن کمیشن نے عمران خان کے ریفرنس پر ارکان کو ڈی سیٹ کیا۔

منصور اعوان نے عمران خان کی ہدایت پر مبنی صفحہ عدالت میں پیش کردیا۔جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ یہ بھی سوال ہے کہ کیا پارلیمانی ہیڈ پارلیمانی پارٹی کے فیصلے کو overrule کرسکتا ہے ؟

بنیادی سوال ہے پارٹی ہیڈ نے پارلیمانی پارٹی کی ہدایات کو اوو رول کیا آپ ہمیں اس پر مطمین کریں۔

جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ اس پر عدالت کو دلائل کے ساتھ مطمئن کریں، منصور اعوان آپ نے جو درخواست میں گرائونڈز لکھے ہیں ان میں وہ باتیں نہیں لکھی جو یہاں کررہے ہیں۔

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ اگر ہم نظرثانی درخواستیں سماعت کے لئے مقرر کریں تو پھر ایسی صورت میں ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ غلط ہو جائیگی، وکیل نے کہا پارلیمانی پالیسی ہی پارٹی کی ہدایت ہوتی ہے۔

عرفان قادر نے کہا کہ کیا پورے کیس میں آج ہی دلائل سنے جائینگے یاپہر فل کورٹ میں بھی سنا جائیگا؟ میں نے تو ابھی اپنے کیس پر دلائل دیئے ہی نہیں۔

عثمان منصور نے اپنے دلائل مکمل کر لیے،  چیف جسثس نے ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے اچھے اور مدلل دلائل دئیے، کوئی دوسری طرف سے ہے جو دلائل دے؟

جسٹس منیب اختر نے کہا کہ ابھی ہم صرف فل۔کورٹ کی بات سن رہے ہیں۔عدالت نے چوہدری شجاعت حسین کے وکیل بیرسٹر صلاح الدین کو روسٹر پر بلالیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ہم نے آپ کو ابھی تک پارٹی نہیں بنایا لیکن اپ کو سن رہے ہیں۔ وکیل صلاح الدین نے کہا کہ میرے موکل بھی یہی چاھتے ہیں کہ فل کورٹ بنایا جائے، پارٹی بھی چوہدری شجاعت کی ہے اور خط بھی ان کا ہے۔

جس کے بعد پرویز الہی کے وکیل بیرسٹر علی ظفر دلائل دینے روسٹرم پر آگئے۔

وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 22 جولائی کو وزیر اعلی کے انتخاب کے الیکشن ہوئے، قانون کے مطابق جو ووٹ کائونٹ ہوئے ہیں اس پر پرویز الہی صوبے کے وزیر اعلی ہیں، ڈپٹی اسپیکر نے ایون میں چوہدری شجاعت کا خط لہرایا جبکہ ووٹنگ سے پہلے ڈپٹی اسپیکر نے وہ خط کسی کو نہیں دکھایا۔

وکیل علی ظفر نے اسپیکر رولنگ کے نقاط پڑھ کر سنائے، اور کہا کہ ڈپٹی اسپیکر نے رولنگ میں اس عدالت کے فیصلے کا سہارا لیا۔ ڈپٹی سپیکر نے پولنگ کے دوران خط رویل نہیں کیا، آخری وقت پر خط لہرا کر دس ووٹ مسترد کر دیئے، جسٹس اعجازلاحسن نے کہا کہ سوال یہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر نے الیکشن کمیشن کے فیصلے پر انحصار کیوں نہیں کیا؟

عدالت میں ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی گئی باتوں کا تحریری مسودہ پڑھ کر سنایا گیا۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میں 63/اے کو جو سمجھا ہوں اس عدالت کو بتاتا ہوں، خط لہرانے کے بعد عدالتی فیصلے کا حوالہ دیکر ق لیگ کے ووٹ مسترد کیے گئے، ڈپٹی اسپیکر نے چوہدری شجاعت کا خط لہرا کر دکھایا، ڈپٹی اسپیکر نے ق لیگ کے دس ووٹ پرویز الہی کے کھاتے سے نکال دئیے، حمزہ کو 179 اور پرویز الہی کو 186 ووٹ ملے۔دس ووٹ کو شمار نہ کرنے پر حمزہ کو وزیر اعلی ڈکلئیر کردیا گیا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ علی ظفر آپ فل کورٹ تشکیل دینے یا نہ دینے پر دلائل دیں، یا پھر جو دوسرے فریق کے وکیل نے دلیل دیئے ہیں ان پر دلائل دیں۔

پارٹی سربراہ کو پارلیمنٹری پارٹی کی ہدایات کے مطابق ڈکلئیریشن دینا ہوتی ہے، آرٹیکل 63 اے سے متعلق عدالت پہلے ہی مفصل رائے دے چکی ہے، فل کورٹ کی کیا ضرورت ہے ؟

یہ چیف جسٹس کا اختیار ہے کہ فل کورٹ بنائے یا نہیں، گزشتہ 25 برس کے دوران صرف 3 یا 4 مقدمات میں فل کورٹ بنی ہے، کئی ایسے مقدمات ہیں جن میں فل کورٹ کی استدعا مسترد کی گئی ہے، عدالت پر مکمل اعتماد ہونا چاہیے،کیا تمام عدالتی کام روک کر فل کورٹ ایک ہی مقدمہ سنے؟ گزشتہ سالوں میں فل کورٹ تشکیل دینے کی استدعا 15 مقدمات میں مسترد ہوئی۔

چیف جسٹس پاکستان نے کہا کہ فل کورٹ نہ بنانے سے دیگر مقدمات پر عدالت کا فوکس رہا ہے، مقدمات پر فوکس ہونے سے ہی زیر التواء کیسز کم ہو رہے ہیں۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ میری استدعا ہے کہ عدالت اس پر قانون کے مطابق فیصلہ کرے، سب سے بڑے صوبے کو بغیر وزیر اعلی کے نہیں رکھا جاسکتا، اس کیس جس میں عدالت نے جو ووٹ کاسٹ نہ کرنے کا فیصلہ دیا تھا وہ لا آف لینڈ ہے، پوری قوم آپ کی شکر گزار ہے کہ اپ نے اچھا فیصلہ کیا، اگر نظرثانی درخواست پر سماعت کی جاتی ہے تو پانچ رکنی لارجر بنچ بنایا جائے۔

وکیل علی ظفر نے دلائل مکمل کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اس بنچ پر مکمل اعتماد ہے۔


متعلقہ خبریں