فاٹاانضمام:آئینی ترمیم سینیٹ سے بھی منظور

سینیٹ کی خالی نشست پر پولنگ کا عمل جاری

اسلام آباد: قومی اسمبلی سے دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور ہونے والی اکتیسویں آئینی ترمیم سینیٹ میں بھی مطلوبہ اکثریت سے منظور کر لی گئی ہے۔

چیئرمین صادق سنجرانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس جمعہ کے روز ہوا جس میں وفاقی وزیر قانون و انصاف محمود بشیر ورک نے فاٹا کے انضمام سے متعلق آئینی ترمیمی بل پیش کیا۔

قومی اسمبلی کی طرح سینیٹ میں بھی موجودہ حکومت کی اتحادی جماعتوں جمعیت علماء اسلام (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے اس بل کی مخالفت جب کہ پاکستان مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور ایم کیو ایم سینیٹرز نے حمایت میں رائے دی۔

پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سینیٹر عثمان کاکڑ نے آئینی ترمیم کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا نہ ہوتا تو آج بھی ہمارے ملک میں انگریزحکمران ہوتا، کل بھی فاٹا کے لئے سیاہ دن تھا اور آج بھی سیاہ دن ہے، کل بھی قومی اسمبلی سے ایک ووٹ سے بل منظور کرایا گیا۔

انہوں نے کہا کہ آج سینیٹ میں حکومت اور اپوزیشن ایک ہیں کیوں کہ انہیں ہدایت ملی ہوئی ہے، فاٹا کے عوام انضمام نہیں اپنا تشخص چاہتے ہیں، وہ این ایف سی ایوارڈ میں اپنا حصہ چاہتے ہیں۔

جماعت اسلامی کے سربراہ سینیٹر سراج الحق نے بل کے حق میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدام ملک کے ایک علاقے کو بنیادی حقوق دینے کے مسئلے سے متعلق ہے، فاٹا کے خیبرپختونخوا میں انضمام سے صوبے کی طاقت میں اضافہ ہو گا۔

اراکین اسمبلی کی بحث کے بعد ایوان بالا میں ترمیمی بل کو منظوری کے لیے پیش کیا گیا تو اس کی حمایت میں 71 اورمخالفت میں 5 ووٹ ڈالے گئے۔ جے یو آئی (ف) اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی نے بل منظوری کے عمل کے دوران سینیٹ اجلاس سے واک آؤٹ کیا۔

پاکستان کے ایوان زیریں یعنی قومی اسمبلی نے گزشتہ روز فاٹا کے خیبر پختونخوا میں انضمام سے متعلق 31 ویں آئینی ترمیم منظور کی تھی۔ مذکورہ ترمیم کو مطلوبہ دو تہائی اکثریت کے ساتھ منظور کیا گیا تھا۔ بل کی متعدد شقوں کی حمایت میں مطلوبہ 228 کے بجائے 231 تک ووٹ پڑے تھے جب کہ مخالفت میں ایک سے تین اراکین اسمبلی نے رائے دی تھی۔

ہم نیوز کے مطابق سینیٹ سے منظوری کے بعد اب یہ بل ایوان صدر بھیجا جائے گا۔ صدر مملکت کے دستخط کے بعد یہ اکتیسویں آئینی ترمیم کا بل آئین پاکستان کا حصہ بن جائے گا۔

بل کے تحت آئندہ پانچ برس تک فاٹا میں قومی اسمبلی کی 12 اور سینیٹ میں 8 نشستیں برقرار رہیں گی۔ فاٹا کے لیے مختص صوبائی نشستوں پر انتخابات آئندہ برس ہوں گے۔ صوبائی حکومت کی عملداری سے صدر، گورنر اور پولیٹیکل ایجنٹ کے خصوصی اختیارات ختم ہوجائیں گے اور بدنام زمانہ قانون ایف سی آر کا بھی مکمل خاتمہ ہو جائے گا۔


متعلقہ خبریں