چیف جسٹس کی نامزدگیوں کیخلاف رائےآئی تووہ اٹھ کرچلےگئے،یہ غیرجمہوری رویہ ہے،جسٹس طارق مسعود

Supreme Court

اسلام آباد: سپریم کورٹ کے جج جسٹس طارق مسعود نے چیف جسٹس کے رویے کو غیر جمہوری عمل قرار دے دیا۔

جوڈیشل کمیشن اجلاس کے معاملے پر جسٹس سردار طارق مسعود نے چیف جسٹس پاکستان کو خط لکھ دیا۔ جس میں انہوں نے 28 جولائی کے اجلاس کے منٹس جاری کرنے کا مطالبہ کر دیا۔

انہوں نے خط میں لکھا کہ جوڈیشل کمیشن اجلاس کے درست منٹس اور تفصیل پبلک کی جائے اور اجلاس میں تمام ممبران کے درمیان ہونے والی گفتگو کا ریکارڈ بھی فراہم کیا جائے۔ مجھے میڈیا کے ذریعے سپریم کورٹ کی پریس ریلیز کا علم ہوا۔

انہوں نے لکھا کہ جوڈیشل کمیشن کا اجلاس شروع ہوا تو چیف جسٹس نے اپنے نامزد ججز کے کوائف کے بارے میں بتایا۔ جسٹس ریٹائرڈ سرمد جلال عثمانی نے 4 ججز کی تقرری کے حق میں ایک کی تقرری کیخلاف رائے دی۔

یہ بھی پڑھیں: ہم پی ٹی آئی کو پاکستان کی سیاست سے باہر کر دیں گے، مولانا فضل الرحمان

جسٹس سردار طارق مسعود نے خط میں کہا کہ میں نے بھی اپنی باری پر رائے دی اور چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ جسٹس اطہر من اللہ کی سپریم کورٹ میں تقرری کی رائے دی کیونکہ چیف جسٹسز ہائی کورٹس میں جسٹس اطہر من اللہ سینئر ترین جج ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس سجاد علی شاہ نے چیف جسٹس کے ناموں کی منظوری دی جبکہ اٹارنی جنرل، وزیر قانون اور بار کونسل کے نمائندے نے بھی 4 نامزد ججز کی تقرری کو مسترد کیا اور میں نے بھی سندھ ہائیکورٹ کے 3 اور لاہور ہائیکورٹ کے ایک جج کی نامزدگی کو مسترد کیا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بھی میری رائے سے اتفاق کیا۔

خط میں لکھا کہ معاملہ واضح ہو گیا تھا کہ کمیشن کے 5 ارکان نے نامزدگیوں کو نامنظور کر دیا تھا لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال رائے سننے کے بعد فیصلہ سنانے کے بجائے اچانک میٹنگ سے اٹھ گئے۔

انہوں نے لکھا کہ سپریم کورٹ ترجمان کی طرف سے جاری اعلامیہ حقائق کے برعکس ہے اور سپریم کورٹ ترجمان جوڈیشل کمیشن ممبر ہے نہ ہی سیکرٹری۔ سپریم کورٹ اعلامیہ میں کہا گیا اجلاس مؤخر کر دیا گیا۔ اجلاس میں ارکان نے 4،5 کے تناسب سے پانچویں نام مسترد کیے۔

جسٹس سردار طارق مسعود نے کہا کہ چیف جسٹس صاحب فوری طور پر جوڈیشل کمیشن اجلاس کے درست منٹس جاری کریں۔


متعلقہ خبریں