شہباز گل پر کیے گئے تشدد سے ملزمان کی اموات ہوجاتی ہیں: ایڈووکیٹ، جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے پر سماعت


اسلام آباد ہائیکورٹ نے شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔ شہباز گِل کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار دینے کیلئے دائر درخواست پر سماعت قائم مقام چیف جسٹس عامر فاروق  نے کی، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ عمران خان نے خاتون ایڈیشنل سیشن جج کے خلاف بہت سنجیدہ الفاظ کہے ہیں۔

وکیل شہباز گل شعیب شاہین نے کہا کہ یہ معاملہ الگ سے ہیں اُس کو درمیان میں نہ لائیں،جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ کیا میں کافی یا کولڈ ڈرنگ منگوا کر پی لوں تب تک آپ لڑ لیں، انہوں نے ریمارکس دئیے کہ وہ الگ سے معاملہ ہے اس کو الگ سے دیکھ لیں گے۔

ایڈووکیٹ جنرنے کہا کہ ہم عمران خان کی تقریر عدالت کے ریکارڈ پر لانا چاہتے ہیں، ہماری استدعا ہے کہ آپ عمران خان کو نوٹس جاری کر کے جواب طلب کر لیں۔

جسٹس عامر فاروق نے جواب دیا کہ جتنا وہ میڈیا میں چل چکا ہے کیا کوئی رہ گیا ہو گا جسے پتہ نہ ہو۔

وکیل شہباز گل نے کہا کہ شہباز گِل پر پولیس حراست میں بدترین تشدد کیا گیا، جب تک جرم ثابت نہ ہو ملزم عدالت کا پسندیدہ بچہ ہوتا ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ پورے ملک کا واحد کیس نہیں ہے، اس سے پہلے بھی کیسز تھے بعد میں بھی کیسز چلتے رہیں گے، ریمانڈ کے کیسز میں ایسی مثال نہ بنائیں، اسلام آباد تو نہیں لیکن لاہور Chok ہو جائے گا، ہائیکورٹ تو صرف اسی کیس کیلئے ہی رہ جائے گی۔

وکیل نے مزید کہا کہ شہباز گِل کی گاڑی کے شیشے توڑے گئے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ میں اس میں نہیں جا سکتا، کیا میں اب ٹی وی لگوا کر وہ ویڈیو دیکھوں؟

یہ بھی پڑھیں: شہباز گل پر تشدد نہیں ہوا تو پھر انکوائری سے کیوں گھبرا رہے ہیں،فواد چودھری

وکیل شہباز گل نے عدالت کے سامنے میڈیکل رپورٹ پڑھ کر سنائی اور کہا کہ تشدد کے اثرات صرف پانچ سے چھ دن رہتے ہیں، میڈیکل بورڈ نے قرار دیا کہ شہباز گل کو کچھ نشانات ہیں، ان کے پرائیویٹ پارٹس پر تشدد کیا گیا، عدالت ڈاکٹرز کو بلا کر پوچھ لے وہ شہباز گل تشدد کے عینی شاہد ہیں، درجنوں مثالیں ہیں پولیس ایسے تشدد کرتی ہے جس کو ٹریس کرنا بہت مشکل ہوتا ہے، پولیس تشدد سے مار کر بھی کہتی ہے بندے نے خودکشی کرلی، بارہ دن بعد تو بڑے سے بڑا تشدد ٹھیک ہوجاتا ہے۔ شہباز گِل دمہ کا مریض ہے لیکن انہیں جوڈیشل مجسٹریٹ کی عدالت میں پیش کیا گیا،مجسٹریٹ نے شہباز گل کو بیماری کا شکار قرار دے کر پمز ہسپتال منتقل کرنے کا حکم دیا، ایسے ہی ملزم کی موت ہو جاتی ہے اور پراسیکیوشن کے خلاف 302 کا کیس بن جاتا ہے، اس کیس کی جوڈیشل انکوائری کی جائے، اس عدالت کے حکم کے بعد وکلاء اور دوستوں کو ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی لیکن ان کی ویڈیوز لیک کی گئیں۔

وکیل سلمان صفدر نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ مجسٹریٹ نے خود آبزرویشن دی کہ ملزم کی کنڈیشن سیریس ہے، ایسے ہی ٹارچر پر ملزمان کی ڈیتھ ہو جاتی ہے، مجھے وکالت نامہ دستخط کرنے کی اجازت بھی نہیں دی گئی، اب اس کی طبیعت بہتر ہو رہی تو کل اس کی وڈیوز لیک کی گئیں۔

وکیل نے کہا کہ ہمارے خلاف سازش کی جارہی ہے میڈیا پر پابندی عائد کی گئی ہے کیا ہم نیشنل جیوگرافک لگا کر بیٹھ جائیں، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کیس پر رہیں معاملے کو پیمرا پابندی کی طرف نہ لے جائیں ایسا کرنے سے آپ ایک ڈیڈ اینڈ پر پہنچ جائیں گے۔

شہباز گل کے موبائل فون کی ریکوری کا کہا گیا کہ وہ ڈرائیور کے پاس ہے،  پھر موبائل فون کی ریکوری کے لیے شہباز گل کے ریمانڈ کی کیا ضرورت ہے؟ گرفتاری میں ہمیشہ موبائل فون اور عینک ساتھ ہی ہوتی ہے ، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شہباز گل سے سازش کا پتہ کرنا ہے۔

شہباز گل کو عدالت نے جوڈیشل کردیا تو واپس کیوں لانا پڑا ؟ کریمنل کیسسز میں شواہد کو عدالت اور فریقین سے چھپایا نہیں جاسکتا، میں نے کہا کہ وہ کونسے شواہد ہیں جس کے لیے مزید جسمانی ریمانڈ کی ضرورت ہے، جس پر کہا گیا کہ ہم آپ سے کچھ بھی شئیر نہیں کرسکتے، تفتیشی کی درخواست اس معاملے پر خاموش ہے، پولیس کی ناکامی ہے کہ گرفتاری کے وقت ان سے موبائل نہیں لیا گیا، پراسیکیوشن کا کیس اگر یہ ہوتا کہ شہباز گل سے موبائل برآمد کرنا ہے تو معاملہ اور ہوتا، پولیس نے مقدمہ درج کیا کہ شہباز گل کا موبائل ان کے ڈرائیور کے پاس ہے، جج نے بھی آرڈر میں لکھا ہے کہ پرچہ میں لکھا ہے کہ موبائل کسی اور کے پاس ہے۔

یہ بھی پڑھیں:شہباز گل کا بیان عمران خان اور پی ٹی آئی کا ایجنڈا ہے، وزیر داخلہ

شہباز گِل کے وکیل سلمان صفدر ںے دلائل مکمل کر لیے، جس کے بعد پراسیکیوٹر رضوان عباسی نے دلائل کا آغاز کیا۔عدالت نے استفسار کیا کہ آپ ریمانڈ کیوں چاہتے ہیں؟ کوئی برآمدگی کرنی ہے کچھ کنفرنٹ کروانا ہے کیا کرنا چاہتے ہیں بتائیں، پراسیکیوٹر نے کہا کہ فون برامد کرنا ہے تحقیقات کے کچھ پہلوں یہاں نہیں بتا سکتا کیس کو نقصان ہوسکتا ہے، جج نے کہا کہ فون لینڈ لائن سے ہوا تو فون کیوں چاہیے تفتیشی کہاں ہے روسٹرم پر آئیں اور بتائیں، تفتیشی افسرنے کہا کہ پتہ لگا لیا ہے لینڈ لائن نمبر فون بنی گالہ عمران خان کی رہائش کا ہے، فون سے پڑھ کر نجی ٹی وی پر بیان دیا گیا ٹرانسکرپٹ برآمد کرنا ہے۔

پراسیکیوٹر نے کہا کہ جسمانی ریمانڈ 15 دن کا ہوتا تو مختلف مراحل میں دیا جاسکتا ہے، عدالت نے کہا کہ اگر پندرہ دن میں تفتیش مکمل نہ ہو تو کیا اس کے بعد بھی ریمانڈ مل سکتا ہے؟ پراسیکیوٹر نے جواب دیا کہ پندرہ دن سے زیادہ جسمانی ریمانڈ نہیں دیا جا سکتا، عدالت نے پوچھا کہ اگر اس کے بعد بھی تفتیش کی ضرورت ہو تو پھر جیل میں تفتیش کی جائے گی؟

پراسیکیوٹر  نے کہا کہبیمار یا زخمی ملزم کو علاج کی سہولت فراہم کرنا ضروری ہے، شہباز گل کا عام فون ریکور ہوا، سمارٹ فون کی ریکوری باقی ہے۔ ایڈیشنل سیشن جج کا مزید 48 گھنٹے کا جسمانی ریمانڈ کا آرڈر بالکل درست ہے۔

پراسیکیوٹر رضوان عباسی کے وکیل کے دلائل مکمل ہو گئے۔

عدالت نے وکلاء پر اظہارِ برہمی کرتے ہوئے کہا کہ دو اہم وکلاء نے اپنے دلائل دئیے، باقی کسی کو دلائل دینے کی ضرورت نہیں، عدالت کا ڈاکٹر بابر اعوان کو دلائل دینے کی اجازت دے دی۔

وکیل جیل حکام نے کہا کہ ملزم کی حوالگی میں چار گھنٹے کی تاخیر ہوئی جو استھما اٹیک کے باعث ہوئی، اسلام آباد کی اپنی جیل نہیں، اڈیالہ جیل رکھنا پڑتا ہے، اگر کسی ملزم کی طبیعت خراب ہو تو قریبی اسپتال لے جایا جاتا ہے، قائم مقام چیف جسٹس نے کہا کہ اسلام آباد کا ملزم ہو تو اسے اسلام آباد کے اسپتال میں ہی رکھا جاتا ہے۔

شہباز گل پر تشدد اور غیر جانبدار ڈاکٹروں کی میڈیکل بورڈ بنانے سے متعلق درخواست پر بابر اعوان کے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کی حراست گرفتاری کے روز سے شروع ہو جاتی ہے، زیادہ سے زیادہ ریمانڈ پہلے ہی مکمل ہو چکا ہے

قائم مقام چیف جسٹس نے ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ آپ کا تو یہ کیس ہی نہیں، یہ ساری چیزیں تو سلمان صفدر کہہ چکے ہیں، آپ اپنی درخواست کی استدعا پڑھیں، آپ اپنے دلائل اس حد تک محدود رکھیں، بابر اعوان نے کہا کہ میں اس عدالت کا سینئر وکیل ہوں اور کچھ گزارشات کرنا چاہتا ہوں۔

ایڈووکیٹ جنرل جہانگیر جدون نے اعتراض کیا کہ اس درخواست میں بابر اعوان وکیل نہیں، دلائل نہیں جا سکتے، جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ کی استدعا ہے کہ پرائیویٹ ڈاکٹرز پر مشتمل میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ نہ یہ شہباز گل کے وکیل اور نہ اسد عمر کی جانب سے پیش ہونے کا حق دعوی حاصل ہے۔

بابر اعوان نے استدعا کی کہ آپ اس درخواست کو زیر التوا رکھ لیں، ایڈووکیٹ جنرل نے اسد عمر کی درخواست قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا، کہا اسد عمر کا نئے ڈاکٹرز پر مشتمل بورڈ بنانے کا اختیار ہی نہیں، یہ درخواست قابل سماعت ہی نہیں، بابر اعوان نے کہا کہ جب وقت آئے گا بتائیں گے کہ کیسے قابل سماعت ہے۔

جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ درخواست ابھی پینڈنگ رکھ رہے ہیں، جب سنی جائے گی تب دیکھیں گے۔

 


متعلقہ خبریں