کیسز غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، ضلعی عدالتیں پراسیکیوشن برانچ کے بغیر کام کر رہی ہیں، جسٹس اطہر من اللہ

کیسز غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، ضلعی عدالتیں پر اسیکیوشن برانچ کے بغیر کام کر رہی ہیں، چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا ہے کہ ہم 21 ویں صدی میں داخل ہوچکے ہیں لیکن قوانین میں تبدیلی نہیں آسکی ہے، آج بھی ہمارے کیسز غیر ضروری تاخیر کا شکار ہوتے ہیں، کیسز کی تاخیر کی وجہ سے عام سائلین کو مشکل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

خاتون جج اور پولیس افسران کو دھمکیاں، عمران خان کی عبوری ضمانت میں 12 ستمبر تک توسیع

ہم نیوز کے مطابق مقامی ہوٹل میں منعقدہ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہمیں سائلین کی مشکلات کو دیکھتے ہوئے اصلاحات کی اشد ضرورت ہے، عدلیہ کے ساتھ ایگزیکٹو بھی ذمہ داری کا مظاہرہ کرے تو تنازعات بہتر طریقے سے مینیج ہو سکتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ضلعی عدالتیں گزشتہ چھ دہائیوں پراسیکیوشن برانچ کے بغیر کام کررہی ہیں، ملک کے دارالحکومت میں ضلعی انتظامیہ کے پاس پراسیکیوشن برانچ نہیں ہے، میں نے گزشتہ ماہ ایک کیس کا فیصلہ دیا جو 1972 میں دائر ہوا تھا۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ اطہر من اللہ نے کہا کہ اسٹیٹ نے کبھی ڈسٹرکٹ جوڈیشری کو ترجیح نہیں دی، ضلعی عدالتیں عام آدمی کو انصاف فراہم کرتی ہیں لیکن وہ غفلت کا شکار ہیں۔

انہوں ںے کہا کہ مجھے اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو معزز ججز کی موجودگی پر فخر ہے، جسٹس میاں گل حسن اور جسٹس اعجاز اسحاق خان بھی ڈسپیوٹ مینجمنٹ کی اہمیت کو سمجھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے ڈسپیوٹ مینجمنٹ کے حوالے سے اقدامات اٹھائے ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ ہم نے ایک اصلاحاتی پروگرام کا آغاز کیا ہے، اسلام آباد ہائی کورٹ کے ججز کو سائلین کو جواب دہ ہونے کا احساس ہے۔

توہین عدالت کے مرتکب شخص کو سزا دئیے بغیر نہیں چھوڑا جا سکتا، اعظم نذیر تارڑ

ہم نیوز کے مطابق سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہتر ڈسپیوٹ مینجمنٹ کی کئی اقسام ہیں، ڈسپیوٹ مینجمنٹ کا قانون موجود ہے، دنیا میں میڈیشن کے ذریعے 3 ملین کیسز کو حل کیا گیا، بیرونی دنیا میں میڈیشن کے قانون کو مخالفت کا سامنا رہا لیکن یہ ایک کامیاب تجربہ ثابت ہوا، اس کی وجہ سے عدالتوں پر کیسز کا دباؤ کم ہوا۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ ہم ثالث وکلا کی ٹریننگ کروا رہے ہیں جو تنازعات کے حل میں معاون ثابت ہوں گے، آئندہ ایک سال میں ہمارے پاس ایک سو سرٹیفائیڈ ثالث وکلا کی ٹیم ہو گی، یہ ثالث وکلا مختلف طرح کے مقدمات میں ماہر ہوں گے، کیسز کو ثالث وکلا کے پاس بھجینے سے بہت سے کیسز کا حل ممکن ہوسکے گا۔

انہوں نے کہا کہ اگر ثالث وکلا کے پاس مقدمہ جانے کے باوجود بھی حل ممکن نہ ہوسکا تو معاملے کے حل نہ ہونے کی رپورٹ بنائی جائے گی، ثالثی وکلا کے معاملے کو حل نہ کر پانے پر معاملہ دوبارہ کورٹ کے پاس بھیجا جائے گا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ  دیگر مقدمات کے علاوہ کریمنل کیسز جن میں ڈسپیوٹ مینجمنٹ کی گنجائش ہوگی وہ بھی ان ثالثی وکلا کو بھیجے جائیں گے، ہمیں اس میڈیشن قانون پر عمل درامد کے لیے وفاقی حکومت کے تعاون کی ضرورت ہوگی، معاملہ میڈیشن کے لیے ثالثی وکلا کے پاس 30 دن کے لیے بھیجا جائے گا۔

سابقہ فیصلے انصاف کے ترازو کا منہ چڑھا رہے ہیں، مریم اورنگزیب

ہم نیوز کے مطابق جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے اپنے خطاب میں کہا کہ برٹش انڈیا میں جرگہ سسٹم کی کبھی حوصلہ شکنی نہیں کی گئی، میڈیشن کا قانون آربٹریشن ایکٹ 1940 کا بھی حصہ ہے، دنیا کے بہت سے ممالک نے آربٹریشن کا قانون اپنایا ہے، آربٹریشن ایکٹ ہماری اسمبلی کے سامنے بھی پیش کیا گیا۔


متعلقہ خبریں