نشے سے پاک پشاور ہمارا عزم و ذمہ داری ہے، والدین بھی بچوں کے معمولات پہ نگاہ رکھیں، وزیراعلیٰ


پشاور: وزیر اعلی صوبہ خیبرپختونخوا محمود خان نے کہا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ والدین کا فرض ہے کہ اپنے بچوں کے معمولات پہ نگاہ رکھیں۔

’’نشہ کرو، یا کچھ بھی‘‘ بیٹے نے شاہ رخ خان کی بات مان لی

ہم نیوز کے مطابق پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے وزیراعلیٰ کے پی نے یہ بات منشیات کی لعنت سے نجات حاصل کرنے والے 1200 افراد کو ان کے عزیز و اقارب کے حوالے کرنے کی ایک تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔

تقریب میں کمشنر پشاور، ڈی سی پشاور اور پولیس افسران سمیت تاجر برادری کی نمائندہ شخصیات نے بھی شرکت کی۔ اس موقع پر تاجر برادری کی جانب سے 380 افراد کو ملازمتیں دینے کا بھی اعلان کیا گیا۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا محمود خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ صوبے کا بارڈر دور دور تک پھیلا ہوا ہے جس کی وجہ سے منشیات کی روک تھام میں مشکلات و دشواریاں پیش آتی ہیں۔ انہوں نے واضح طور پر کہا کہ نشے سے پاک پشاور ہمارا عزم اور ذمہ داری ہے۔

تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کمشنر پشاور ریاض محسود نے کہا کہ نشے سے پاک خصوصی مہم کے تحت بحال ہونے والے افراد ہمارے لئے قابل فخر ہیں، ان افراد کو تنہا نہیں چھوڑا جائے گا، ہر ہفتے ان سے رابطہ کر کے ان کا حال پوچھنا مہم کا حصہ ہے۔

کمشنر ریاض محسود نے کہا کہ خصوصی مہم کا دوسرا فیز ستمبر میں شروع ہوگا جس کے تحت پہلے مرحلے میں تمام تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم طلبہ کے ڈوپ ٹیسٹ کیے جائیں گے۔ انہوں نے اعلان کیا کہ ڈوپ ٹیسٹ کی ابتدا میں خود سے کروں گا۔

سندھ کے تعلیمی اداروں میں آئس کا بڑھتا نشہ: وجہ آئی جی سندھ نے بتادی

ہم نیوز سے خصوصی مہم کے متعلق بات چیت کرتے ہوئے اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر (اے ڈی سی) پشاور احتشام الحق نے کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا کے شہر پشاور میں چودہ سال سے لے کر ستر سال تک کی عمر کے دو ہزارسے زائد نشئی افراد سڑکوں پہ رہتے ہیں، ان افراد میں دیگر صوبوں اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ سڑکوں پر رہنے والے یہ افراد نہ صرف خطرناک موذی امراض میں مبتلا ہیں بلکہ اسٹریٹ کرائمز میں بھی ملوث پائے جاتے ہیں، پولیس اور اے این ایف سمیت دیگر ادارے ان کو پکڑ کر (سیکشن نائن اے) اور(سیکشن نائن بی) کے تحت کارروائی کرتے ہیں جس پر اندازاً چھ ہزار روپے تک خرچ ہوتے ہیں لیکن اس کے بعد قانون کے تحت وہ 500 روپے جرمانہ ادا کر کے رہائی پا لیتے ہیں اورایک مرتبہ پھر سڑکوں کو اپنا ٹھکانہ بناتے ہیں۔

احتشام الحق نے کہا کہ نشہ ایک لعنت ہے جو وقتی طور پر انسان کو ذہنی سکون دیتا ہے لیکن ماہرین کے مطابق ہمشہ کے لیے مفلوج بنانے کی راہ پہ گامزن کردیتا ہے، افسوسناک امر ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نشہ آور اشیا کے استعمال میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے جو بحیثیت قوم ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

اسسٹنٹ ڈپٹی کمشنر احتشام الحق نے کہا کہ صوبائی حکومت کی ہدایت پرضلعی انتظامیہ پشاور نے شہر کو نشئی افراد سے پاک کرنے کے لئے ایک جامع پلان تشکیل دیا تھا جس کے تحت خصوصی مہم کا آغاز کیا گیا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ اس مہم کو تین فیز میں تقسیم کیا گیا تھا جس کے پہلے فیز میں تقریباً 1200 افراد کو سڑکوں، چوراہوں اور گلیوں سے اٹھا کر بحالی سینٹر منتقل کیا گیا۔ بحالی سینٹر منتقل ہونے والے 1200 افراد کو الخدمت فاؤنڈیشن، د حق آواز اور دوست فاؤنڈیشن کے حوالے کیا گیا جس کے بعد ضلعی انتظامیہ کے دفتر میں کنٹرول روم قائم کر کے ان 12 افراد کے ڈیٹا کی جانچ پڑتال کی گی۔

اسلام آبادکے تعلیمی اداروں میں اساتذہ ،طلبہ اور اسٹاف کا ڈرگ ٹیسٹ لینے کا فیصلہ

احتشام الحق کے مطابق خصوصی مہم کے فیز ٹو مرحلے میں ان افراد کی میڈیکل ٹریٹمنٹ اور دوبارہ بحالی پر فوکس رکھا گیا جس کے تحت ان افراد کی ٹاکسفیکشن، اسکریننگ، سائیکو تھراپی اور کاؤنسلنگ کی گئی۔ فیز تھری میں افراد کو نشے سے چھٹکارہ ملنے کے بعد روزگار کے مواقع فراہم کرنے کے لئے ہنر سکھانے کا ہدف رکھا گیا البتہ وہ افراد جو ایچ آئی وی تھے انہیں صوبائی حکومت کی جانب سے علاج کے لیے وفاقی دارا لحکومت اسلام آباد بھیج دیا گیا جہاں وہ زیر علاج ہیں۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ بحالی سینٹر میں منتقل کیے جانے والے افراد نے نشہ اختیار کرنے کی مختلف وجوہات بیان کیں۔ مثلاً کسی نے امتحانات میں کم نمبر آنے پر نشے کا سہارا لیا، کوئی بری صحبت کی وجہ سے ہولناک راستے کا مسافر بنا تو کسی نےعشق میں ناکامی پر اپنے لیے یہ راہ چنی۔ 1200 افراد میں سے تقریباً 800 ایسے افراد تھے جنہوں ںے بتایا کہ وہ گزشتہ کئی سالوں سے اپنے گھروں سے نکلے ہوئے تھے لیکن جب تقریب میں دوبارہ برسوں بعد ملے تو دیکھنے والی ہر آنکھ اشکبار تھی۔

ہم نیوز کے مطابق بحالی سینٹر میں فیصل آباد سے تعلق رکھنے والی ایک ایسی خاتون تھیں جن کی شادی مردان میں ہوئی تھی لیکن نشے کی وجہ سے گھر سے نکالی گئی تھیں جس کے بعد وہ پشاور آگئی تھیں کیونکہ اول نشے کی قیمت کم تھی، دوئم با آسانی طلب بھی پوری ہو جاتی تھی اور زیادہ تگ و دو بھی نہیں کرنی پڑتی تھی۔

آفس کولیگ کو9ماہ تک نشہ پلانے والی خاتون گرفتار

پشاور میں سالوں سے گلی کوچوں اور سڑکوں پہ اپنی زندگی گزارنے والی خاتون اب دوبارہ زندگی کی طرف لوٹ آئی ہیں جب کہ ایک دوسری خاتون جو والد کی وفات کے بعد ڈپریشن کی وجہ سے نشے کی لت کا شکار ہو گئی تھیں، آئندہ مستقبل سے اچھی امیدیں وابستہ کرنے لگی ہیں وگرنہ ان کا وقت بھی سڑکوں اور گلی کوچوں میں گزرتا تھا۔


متعلقہ خبریں