لاپتہ افراد کی تلاش میں کوئی کسر نہیں چھوڑوں گا، وزیراعظم کی عدالت کو یقین دہانی


اسلام آباد ہائی کورٹ میں لاپتہ افراد کی بازیابی سے متعلق کیس پر وزیر قانون عطا تارڑ کی استدعا پر اقدامات کےلئے 2 مہینوں کا وقت دے دیا۔ سماعت کے دوران وزیراعظم شہبازشریف بھی اسلام آباد ہائیکورٹ میں موجود تھے، چیف جسٹس اطہر من اللہ نے سماعت کے دوران کہا کہ وزیراعظم صاحب مسنگ پرسنز ایک بہت بڑا ایشو ہے، ریاست کا وہ ردعمل نہیں آ رہا جو ریاست کی ذمہ داری ہے، آئین پر عمل نہیں ہوتا تو سب کچھ پیک کر کے گھر جانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ بہت پیچیدہ صورتحال ہے، بدقسمتی سے ایک 9 سال چیف ایگزیکٹو رہنے والے نے فخریہ لکھا ہے کہ لوگوں کو اٹھا کر بیرون ملک بھیج دیتے ہیں، اس بات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ ریاست کی پالیسی ہے، آپ نے کمیٹی تشکیل دی جس پر عدالت آپ کی مشکور ہے، لاپتہ افراد کے اہل خانہ جس تکلیف سے گزرتے ہیں اس کا کسی کو اندازہ نہیں، لاپتہ افراد احتجاج کرتے رہے لیکن وفاقی حکومت نے ان کی اواز نہ سنی،ہم لاپتہ افراد کے مسئلے کا حلا چاہتے ہیں اس لیے آج اپ کو تکلیف دی ، جب ہمارے سامنے کہا جاتا ہے کہ ہمیں نہیں پتہ کہ لاپتہ افراد کو کون اٹھا کر لے گیا۔

اس عدالت نے مناسب سمجھا کہ آپ کو بتایا جائے کہ مسئلہ کیا ہے ، لاپتہ افراد کے لیے کمیشن بنا، مگر اس کی پروسیسنگ بڑی ڈسٹربنگ ہے، لاپتہ افراد کمیشن کی سماعتوں سے ان خاندانوں کی دکھوں سے اضافہ ہوا، ان لوگوں کو چاہیے تھا کہ ان میں سے کوئی اس عدالت نہ آتا، ریاست کی زمہ داری ہے کہ وہ خود ہر ایک کے گھر خود جاتے، یہاں پر لوگ بازیاب ہوئے مگر کوئی ایکشن نہیں ہوا۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ میرے خیال میں اس سے بڑا کوئی بھی ایشو نہیں ہے ، بلوچ طلباء کے جو مسائل سامنے آرہے ہیں وہ بہت ڈسٹربنگ ہے، شہری ریاست سے غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، ایگزیکٹو کا کام ہے کہ شہریوں کی تحفظ یقینی بنائے، ٹارچر کا سب سے بڑا قسم ، لاپتہ افراد ہے، تمام ادارے وزرات داخلہ کے ماتحت ہیں ، جب مدثر نارو کا تین سالہ بچہ یہاں آتا ہے تو ہم اسے کیا جواب دیں کہ اس والد کہاں ہیں ؟
نیشنل سیکیورٹی کے تمام معاملات سولین چیف ایگزیکٹو کی طرف سے دیکھے جانے چاہئیں۔

یہ بھی پڑھیں: ان کی کوشش ہے کسی طرح عمران کو میچ سے نکالا جائے، یہ ہار رہے تھے تو وکٹیں اٹھا کر بھاگ گئے، عمران خان

فورسز کی جانب سے لوگوں کو اٹھائے جانے کا تاثر بھی ملک کیلئے نقصان دہ ہے، یہ آئینی عدالت ہے ریاست آ کر کہتی ہے کہ ہمیں نہیں پتہ شہری کہاں ہے، پھر اس عدالت کے پاس آئین کے تحت فیصلہ دینے کا آپشن موجود ہوتا ہے، یا تو آپکو کہنا پڑیگا کہ اس ملک میں آئین مکمل طور پر نافذ نہیں، اگر یہ بات ہے تو پھر یہ عدالت کسی اور سے پوچھے گی، پھر بھی ذمہ داری چیف ایگزیکٹو کی ہی ہوتی ہے، آپ اس وقت سیلابی صورتحال میں کام کر رہے ہیں، عدالت سراہتی ہے کہ آپ اس معاملے کی سنگینی کو سمجھتے ہوئے عدالت آئے ہیں۔

وزیراعظم نے عدالت میں کہا کہ لاپتہ افراد کا معاملہ 20 سال پرانا ہے، ریاست کا سربراہ ہونے کے ناطے یہ میرا فرض ہے کہ میں پتہ کروں کہ مدثر نارو کہاں ہیں، میں آپ کو یقین دہانی کرواتا ہوں کہ میں اپنی ڈومین میں سب اقدامات اٹھا کر لاپتہ افراد کو ڈھونڈنے کی کوشش کرونگا، میں اس خالق کائنات اور اس کائنات کو اس معاملے پر جواب دہ ہوں۔میں یہاں کوئی Lame excuse دینے نہیں آیا، مدثر کے تین سالہ بیٹے سے ملا اس نے مجھے کہا کہ وزیراعظم میرے ابو کو مجھ سے ملا دیں، یہ سوال میرے لیے بہت تکلیف دہ ہے۔

اب ضرورت ہے کہ آگے بڑھ کر اس کے والد کی تلاش کی جائے، اللہ جانتا ہے یہ کس نے کیا ہے لیکن اس کو تلاش کرنا میری ذمہ داری ہے، اللہ میرے گناہوں کو معاف کرے میں نے چاہتے ہوئے کبھی عفلت کا مظاہرہ نہیں کیا، میں لاپتہ افراد کی تکالیف اور دکھوں کو دیکھ سکتا ہوں، بالآخر مجھے جا کر اپنے رب کو بھی جواب دینا ہے، میں یہاں Blame game کھیلنے نہیں آیا، ہم نے ایک کابینہ کمیٹی تشکیل دی ہے اور اسکی چھ میٹنگز ہو چکی ہیں۔

میں یقین دلاتا ہوں کہ اپنی بساط میں اس معاملے کے حل کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑونگا، میں لاپتہ افراد کمیٹی کی خود سربراہی کرونگا اور رپورٹ عدالت میں پیش کرونگا، وہ رپورٹ کہانی نہیں ہو گی بلکہ حقائق پر مبنی ہو گی، گزشتہ چار سالوں میں مجھے دو بار جیل میں ڈالا گیا، میں یہاں اپنے متعلق بات نہیں کرونگا، میں بہت سادہ آدمی ہوں اور اللہ مجھے معاف کرے، میں نے بطور وزیر اعلی پنجاب اپنا خون پسینہ بہایا ہے، اگر اللہ نے چاہا تو اس ملک میں کوئی لاپتہ نہیں رہے گا۔

یہ بھی پڑھیں: جو بھی ریڈ لائن کراس کریگا توہین عدالت کی کارروائی ہو گی، چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ

چیف جسٹس نے کہا کہ وزیراعظم صاحب آپکا وقت بہت قیمتی ہے ہم زیادہ وقت نہیں لیں گے، انہوں نے اٹارنی جنرل سے آئین کا آرٹیکل پڑھنے کا کہا۔

چیف جسٹس نے وزیراعظم سے کہا کہ جو کمیٹی آپ نے بنائی وہ کافی نہیں ہے، ہمارے پاس کیس ہے دو بھائیوں کو اسلام آباد سے پولیس یونیفارم میں لوگوں نے اٹھا لیا، یہ کوئی دور کی بات نہیں، انہیں وفاقی دارالحکومت سے اٹھایا گیا، ایک چیف ایگزیکٹو نے کہا کہ لوگوں کو اٹھانا ریاست کی پالیسی تھی، اگر یہ ریاست کی پالیسی تھی تو یہ Subversion تھی۔

وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جس چیف ایگزیکٹو کی آپ بات کر رہے ہیں وہ ملک کا ڈکٹیٹر تھا، میں اور میرا بھائی اس شخص کے متاثرین میں سے ہیں، اس چیف ایگزیکٹو کے دور میں ہمیں ملک بدری میں رہنا پڑا، یہ ملک اس شخص کی وجہ سے بہت متاثر ہوا۔

چیف جسٹس نے کہا کہ یہ عدالت سول۔ سپرمیسی کو یقینی بنائے گی ، اس ملک میں کوئی قانون سے بالاتر نہیں ہے، مسنگ پرسنز پر عدالت نے ایک کمیٹی بنائی تھی، سنجیدگی دیکھیں کہ انکی ایک میٹنگ نہیں ہوئی، وفاقی اور صوبائی چیف ایگزیکٹو کسی بھی شخص کے لاپتہ ہونے کا ذمہ دار ہے، ایک بھی شخص اگر لاپتہ ہوتا ہے تو چیف ایگزیکٹو براہ راست ذمہ دار ہے، یقینی بنائیں کہ کسی کو مسنگ نہ کیا جا سکے۔

یہ ریاست کیلئے ایک ٹیسٹ کیس ہے، ایشوز ہونگے لیکن انکا حل پارلیمنٹ اور چیف ایگزیکٹو نے نے کرنا ہے، عدالت یقینی بنائے گی کہ سول سپریمیسی کی آئین کی منشاء پر عملدرآمد ہو، آئین کو نافذ کرنا ایگزیکٹو کی ذمہ داری ہے، اگر آئین کی منشاء پر عمل نہیں ہوتا تو سب کچھ پیک کر کے گھر جانا چاہیے۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ آمنہ مسعود جنجوعہ نے کمیشن سے متعلق جو باتیں کہیں وہ تکلیف دہ ہیں، معاملات کو پارلیمنٹ میں لے کر جائیں ان پر قانون سازی کریں، بھارت نے یہی کیا دیگر ممالک نے بھی یہی کیا، لوگوں کو لاپتہ کرنا ناقابل برداشت ہے، عدالت پھر چیف ایگزیکٹو کو ذمہ دار ٹھہرائے گی۔

اس عدالت کے سامنے بلوچ طلبہ کی شکایات آتی ہیں ان کو نسلی امتیاز کا شکار بنایا جارہا ہے، بلوچ طلبہ پاکستان کا مستقبل ہیں وہ ریاست سے غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں، اس وفاقی دارالحکومت سے ایک صحافی کو اٹھایا گیا سی سی ٹی وی کی فوٹیجز موجود ہیں انکوائری نہ ہوسکی، کچھ تلخ حقائق ہیں جنہیں نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، اب تو ہر تھانے میں ایسے ٹیمیں بن گئی ہیں جو لوگوں کو اٹھا لیتی ہیں۔

جس کے بعد مدثر نارو کی والدہ روسٹرم پر آگئیں، انہوں نے کہا کہ میں وزیراعظم کو بتانا چاہتی ہوں ہم سے جھوٹے وعدے کیے گئے، ہم اپنے بچپن میں افواج کی گاڑی دیکھ کر احتراماً روک جاتے تھے، میں چاہتی ہوں آنے والی نسلیں بھی اپنے سیکیورٹی اداروں کی ایسے ہی عزت کریں۔

اگر قانون کی خلاف ورزی ہوتی رہی تو ہر حکمران ذمہ دار ہے، یہ عدالت آئین کو دیکھے گی اور اسکے بعد ایک فیصلہ دیگی، اٹارنی جنرل صاحب اگر آپ تیار ہیں تو آج دلائل دیں پھر عدالت ایک فیصلہ دے، ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے جس کی ذمہ داری ہوتی ہے وہ کہتا ہے میں کیا کر سکتا ہوں، یہ بہانہ بنایا جاتا ہے کہ میرے پاس تو اختیار ہی نہیں اختیار تو کسی اور کے پاس ہے، اگر آپ ذمہ داری نہیں لے سکتے تو پھر اپنا آفس چھوڑ دیں.

اٹارنی جنرل اشتراوصاف نے کہا کہ دلائل وہاں دیے جاتے ہیں جب اختلاف ہو، میں نے، وزیر قانون اور وزیر داخلہ نے اس معاملے پر بہت سنجیدگی سے مشاورت کی ہے، خدا کی قسم اگر پاکستان نہ ہو تو میں یہاں کھڑا نہ ہوں، میں نے اس عدالت سے جا کر اس عدالت کی بنائی کمیٹی کے ممبران کو فون کر کے بات کی، میں نے اسد عمر کو بھی کال کی، صرف چیئرمین سینیٹ کے علاوہ، میں چیئرمین سینیٹ سے ذاتی طور پر ملنے جاؤں گا، آپ نے وزیراعظم کی ذمہ داری لگائی ہے ہم کام کریں گے، آپ ہمیں تھوڑا موقع دیں پھر آپکو شکایت نہیں ہو گی، اگر ہم ذمہ راری پوری نہ کر سکے تو میں آ کر کہوں گا کہ میں فیل ہو گیا۔

یہ بھی پڑھیں: ایسے لگا کلبھوشن آرہا ہے، گرفتار کیا تو جیل جا کر اور خطرناک ہو جاؤں گا، عمران خان

وزیر قانون عطا تارڑ نے کہا کہ یہ متحدہ حکومت ہے اور حکومت کے اتحادیوں کا یہ اپنا مسئلہ ہے، اس حکومت نے اس لئے ایک کمیٹی تشکیل دی تاکہ معاملے کی گہرائی تک پہنچ سکیں، ہماری کمیٹی کے سات لوگ جان فیشانی سے کام کر رہے ہیں، ہفتہ وار اجلاس منعقد ہورہے ہیں، ہمیں تھوڑا وقت دیں یہ بیس سال پرانا مسئلہ ہے اس میں مائنز بھی ہیں، یہ مسئلہ جب بھی حل ہوا ڈائلاگ سے ہی ہوگا ، تقریر ہم کررہے ہیں لیکن گراونڈ پر تلخ حقائق اور بارودی سرنگیں ہیں ، آپ نے پارلیمنٹ کو ہمیشہ عزت دی ہے لیکن اس ملک میں پارلیمنٹ سے زیادہ بے توقیری کسی ادارے کی نہیں ہوئی۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو چیزیں خراب ہوئی ہیں اس کا حل یہی ہے کہ جس ادارے کا جو کام ہے وہ وہی کام کرے، یہاں تو ہر ایک نے اپنی سی ٹی ڈی بنا رکھی ہے کون جواب دے گا، اس عدالت کے سامنے تمام اداروں کا کنڈکٹ ہے ،آپ کہہ دیں کہ سیکیورٹی ایجنسیز میرے اختیار میں نہیں ہیں۔
پیپیلز پارٹی کے سینئر رہنما فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پارلیمان نے اپنا کام 2015 میں اپنا کام مکمل کر لیا تھا، پارلیمان کا خیال تھا کہ اس کے پیچھے انٹیلی جنس ایجنسیز ہیں۔

چیف جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ انٹیلی جنس ایجنسیز کس کے ماتحت ہیں؟ کوئی چیف ایگزیکٹو خود کے بے بس ہونے کا بہانہ نہیں بنا سکتا، یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اس عدالت میں چیزیں خراب ہو رہی ہیں لیکن رجسٹرار ذمہ دار ہے، اگر آپ یہ جواز دے رہے ہیں تو اسکا مطلب ہے آپ کہہ رہے ہیں کہ یہاں ریاست کے اندر ریاست ہے، اگر کوئی جنرل پرویز مشرف کی پالیسی کو جاری رکھے تو یہ نہیں کہہ سکتا کہ میں مجبور ہوں، اگر کوئی اپنی ذمہ داری پوری نہیں کر سکتا اور سمجھتا ہے کہ وہ مجبور ہے تو وہ اسکا ذمہ دار ہے، اگر چیف ایگزیکٹو کہے کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں میرے ماتحت نہیں تو وہ آئین سے انحراف تسلیم کرتا ہے، جو چیف ایگزیکٹو یہ تسلیم کر لے اسکو پھر عہدہ چھوڑ کر گھر جانا چاہیے۔

عطا تارڑ نے کہا کہ ہم کوئی 10 ماہ نہیں بس 8 سے دس ہفتے مانگ رہے ہیں، ہم سب چھوڑ کر ان لواحقین کے پاس گئے حوصلہ افزائی جواب دیا جاتا ہے ایسی کہانیاں ہیں، ہم دو ماہ میں اس معاملے میں ایک بہتر پوزیشن میں ہونگے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی ایسا فورم انکو بتا دیں جو مسنگ پرسنز کے لواحقین کے لئے ہر وقت دستیاب ہو، یہ ایک دوسرے پر الزامات کا نہیں بلکہ خود احتسابی کا وقت ہے۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے کہا کہ حکومت لاپتہ افراد کیسز کے فیصلوں کے خلاف اپیلیں واپس لے۔عدالت کے فیصلے کے بعد کافی تعداد میں لاپتہ افراد اب جیلوں میں ہیں، میں نے آپ کو صرف ابھی tip of iceberg بتائی ہے، میں اس معاملے پر ان متاثرین کے لیے اپنی زندگی وقف کرنے کو تیار ہوں روزانہ کی بنیاد پر بھی اسسٹ کرنے کے لیے دستیاب ہوں۔

عدالت نے اعظم نذیر کی استدعا پر اقدامات کےلئے 2 مہینوں کا وقت دے دیا۔

 


متعلقہ خبریں