سیاسی جماعتوں کے سخت ردعمل پر تحمل کا مظاہرہ کیا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال


 چیف جسٹس عمر عطا بندیال کا کہنا ہے کہ سیاسی مقدمات کے فیصلوں پر سیاسی جماعتوں کی جانب سے سخت ردعمل دیا گیا لیکن  ہم تحمل کا مظاہرہ کیا۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال  نے اسلام آباد میں نئے عدالتی سال کی تقریب سے  خطاب میں کہا ہے کہ چارج سنبھالا تو فوری فراہمی انصاف، زیر التوا مقدمات کے چیلنجز درپیش تھے۔

ان کا کہنا ہے کہ از خود نوٹس کے اختیارات کا استعمال بھی ایک چیلنج تھا۔ خوشی ہے کہ زیرِ التوا مقدمات کی تعداد 54 ہزار 134 سے کم ہو کر 50 ہزار 265 ہو گئی۔

یہ بھی پڑھیں:انسداد دہشت گردی کیس: عمران خان کی عبوری ضمانت میں 20 ستمبر تک توسیع

انہوں  نے کہا ہے کہ زیرِ التوا ٰمقدمات کی تعداد میں کمی نے 10 سال کے اضافے کے رجحان کو ختم کیا۔صرف جون سے ستمبر تک 6 ہزار 458 مقدمات کا فیصلہ کیا گیا۔

ان کا کہنا ہے کہ جج صاحبان نے اپنی چھٹیوں کو قربان کیا، آئندہ 6 ماہ میں مقدمات کی تعداد 45 ہزار تک لے آئیں گے، فراہمی انصاف کے متبادل نظام سے یقین ہے کہ زیرِ التواء مقدمات میں 45 فیصد تک کمی ہو گی۔

انہوں نے کہا ہے کہ مارچ 2022ء سے ہونے والے سیاسی  واقعات کی وجہ سے سیاسی مقدمات عدالتوں میں آئے۔  سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ پر ججز کی مشاورت سے از خود نوٹس لیا، ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کے خلاف 5 دن سماعت کر کے رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا۔

ان کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ کا فیصلہ 3 دن میں سنایا۔ سابق ڈپٹی اسپیکر پنجاب اسمبلی دوست محمد مزاری کی رولنگ کو کالعدم قرار دینے پر سیاسی جماعتوں نے سخت ردِعمل دیا، سیاسی جماعتوں کے سخت ردِ عمل کے باوجود تحمل کا مظاہرہ کیا گیا۔

یہ بھی پڑھیں:مجھے نواز ،الطاف سے نہ ملائیں، دہشتگردی کا مقدمہ ملک کی توہین، عمران خان

ان کا کہنا ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے مقدمے کا فیصلہ میرٹ پر ہوا، اس مقدمے میں وفاق نے فل کورٹ بنانے کی استدعا کی جوقانون کے مطابق نہیں تھی، اس مقدمے میں سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا کردار بھی جانبدارانہ رہا، اس مقدمے کے فیصلے کا ردِ عمل ججز کی تقرری کے لیے منعقدہ اجلاس میں سامنے آیا۔

انہوں نے کہا ہے کہ ججز کی تقرریوں کے سلسلے میں بار کی معاونت درکار ہے، آبادی میں اضافے سے متعلق کیس کو جلد سنا جائے گا۔پالیسی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے، لوگوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے مقدمات بھی سننے پڑتے ہیں۔

 


متعلقہ خبریں