ایاز امیر کوبہو کے قتل کے مقدمہ سے ڈسچارج کر دیا گیا


اسلام آباد:  عدالت  نے سارہ انعام قتل کیس میں سینیئر صحافی ایاز امیر کا نام  مقدمے سے خارج کرنے کا حکم دے دیا۔

اسلام آباد کی مقامی عدالت میں  سارہ قتل کیس کی سماعت ہوئی۔اسلام آباد پولیس نے ایاز امیر کو سینیئرسول جج محمد عامر عزیز خان کی عدالت میں پیش کیا۔اسلام آباد پولیس نے  ایاز  امیر کے مزید  5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا کی۔

ایاز امیر کے وکیل نے کہا کہ ایاز امیر کا اس کیس سے کوئی تعلق نہیں۔ایاز امیر کے خلاف پولیس کے پاس کوئی ثبوت نہیں۔انگلینڈ سے اگر بندہ آرہا ہے تو وہ اس کیس کا گواہ نہیں ہو سکتا۔

یہ بھی پڑھیں:سارہ قتل کیس:ملزم شاہنواز اور والد ایاز امیر کا مزیدجسمانی ریمانڈ منظور

ان کا کہنا تھا کہ پولیس ایک بٹن دبائے تو سی ڈی آر نکل آتی ہے۔والد کا بیٹے سے رابطہ وقوعہ کے بعد ہوا ہے۔باپ کا بیٹے سے رابطہ ہو جائے تو کیا دفعہ 109 لگتی ہے۔پھر تو  جس جس سے رابطہ ہوا پولیس انکو ملزم بنا دیں گے۔

وکیل نے دلائل میں کہا کہ پولیس خود کہہ رہی ہے بے گناہ ہوئے تو ڈسچارج کر دینگے تو اتنے دن گرفتار رکھا جگ ہنسائی ہوئی اسکا ذمہ دار کون ہے۔ابھی پولیس ثبوت اکٹھی کر رہی ہے اور ایاز امیر کو گرفتار کر لیا ہے۔

مقتولہ کے والدین کا میرے موکل کے خلاف کوئی بیان بھی نہیں ہے۔پولیس کے پاس ایاز امیر کے خلاف کوئی ثبوت موجود نہیں ہے۔ہم تفتیش سے نہیں بھاگ رہے۔کوئی قانون بتا دیں جس کے تحت ایاز امیر کو اس مقدمہ میں نامزد کیا جا سکتا ہو۔

سرکاری وکیل کی جانب سے دلائل میں کہا گیا کہ یہ ساری باتیں ٹرائل کی ہیں، ریمانڈ سٹیج پر دیکھا جائے کیا ثبوت آئے ہیں۔کل مقتولہ کے والدین آئے ہیں، انہوں نے لاش کی تدفین بھی کرنی ہے۔ایاز امیر کا بیٹے سے واٹس ایپ پر رابطہ ہوا ابھی تک وہی ثبوت ہے۔

نہوں نے دلائل دیے کہ تفتیش کے دوران ایسا لگا کہ ایاز امیر بے گناہ ہیں تو خود ڈسچارج کر دیں گے۔ایاز امیر کو مقدمہ میں نامزد بھی مقتولہ کی فیملی نے کیا ہے۔

جج نے استفسار کیا کہ ایاز امیر کو کس نے مقدمہ میں نامزد کیا، وہ کدھر ہیں؟ سرکاری وکیل  نے بتایا کہ وہ مقتولہ کے چچا ہیں اور پاکستان ہی میں ہیں۔

جج نے  ریمارکس دیے کہ آپکے پاس بادی النظر میں ایاز امیر کے خلاف ثبوت کیا ہے؟مقتولہ کے قتل کے بعد مرکزی ملزم کا اپنے والد سے رابطہ ہوا تھا۔واٹس ایپ کال کا سی ڈی آر نہیں آتا۔موبائل فون کو فرانزک کے لیے بھیج دیا ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بیٹے کےہاتھوں بہو کےقتل کیس میں صحافی ایازامیر گرفتار

ایاز امیر کے وکیل نے کہا پولیس بندہ گرفتار کر کے ثبوت ڈھونڈ رہی ہے۔ہماری استدعا ہے ایاز امیر کو مقدمہ سے ڈسچارج کرے۔جب ثبوت آجائیں تو پھر وارنٹ لیکر آجائیں اور گرفتار کر لیں۔

فریقین کے  دلائل سننےکے بعد  عدالت نے پولیس کی جانب سے ایاز امیر کے مزید 5 روزہ جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ کرلیا،  بعد ازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے ایاز امیر کو مقدمے سے ڈسچارج کردیا، عدالت کا کہناتھا کہ ایازامیرکے خلاف کوئی ثبوت نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں