عمران خان عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کیسے اور کیوں چھوڑ آئے؟ چیف جسٹس

Supreme Court

اسلام آباد: چیف جسٹس سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ عمران خان حلقے کے عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کیسے اور کیوں چھوڑ آئے؟ نیب ترامیم پر تمام سوالات اسمبلی میں بھی اٹھا سکتے تھے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے سپریم کورٹ میں دلائل دیئے۔ نیب نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنانے کا تحریری مؤقف عدالت میں جمع کرا دیا۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ عوامی عہدیداروں کے احتساب کا قانون 1949 سے آج تک موجود ہے اور احتساب کے جتنے بھی قوانین آئے عوامی عہدیداروں کو کسی میں استثنیٰ نہیں ملا۔

جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ پارلیمان اگر نیب قانون کو ختم کر دے تو عدالت کیا کر سکے گی؟ کیا سپریم کورٹ نے کسی ختم کیے گئے قانون کو بحال کرنے کا کبھی حکم دیا ہے؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ سپریم کورٹ 1990 میں واپس لیا گیا قانون بحال کرنے کا حکم دے چکی ہے اور عوامی عہدیدار ہونا ایک مقدس ذمہ داری ہوتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان بھی آئین اور شریعت کے تابع ہوتی ہے جبکہ احتساب اسلام کا بنیادی اصول ہے۔

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پلی بارگین سے متعلق قانون میں اہم تبدیلیاں کی گئی ہیں اور پلی بارگین کی قسط نہ دینے والے کو سہولت دی گئی ہے جبکہ پہلے پلی بارگین کی رقم نہ دینے والے کے خلاف کارروائی ہوتی تھی۔ ترمیم کے بعد قسط نہ دینے والے کی پلی بارگین ختم ہو جائے گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ ملزم کا کیس 50 کروڑ روپے سے کم ہو تو ازخود کیس ختم ہوجائے گا۔

وکیل نے کہا کہ ترمیم کے تحت ملزم بری ہو کر جمع کرائی گئی پلی بارگین رقم واپس مانگ سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حکومت نے کیسز ختم کرانے کیلئے نیب قوانین تبدیل کیے، فواد چودھری

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ اس طرح تو ریاست کو اربوں روپے کی ادائیگی کرنا پڑے گی اور گرفتاری کے دوران پلی بارگین کرنے والا دباؤ ثابت بھی کر سکتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا دباؤ ڈال کر ملزم سے پیسے لینا درست ہے؟ وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ پلی بارگین احتساب عدالت کی منظوری سے ہوتی ہے اور اگر ملزم پر دباؤ ہو تو عدالت کو آگاہ کر سکتا ہے۔ منتخب نمائندے حلقے میں کام نہ ہونے پر عدالت ہی آسکتے ہیں اسمبلی نہیں جاتے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عمران خان پر بھی عوام نے اعتماد کر کے اسمبلی بھیجا تھا تو پھر عمران خان حلقے کے عوام کی مرضی کے بغیر اسمبلی کیسے اور کیوں چھوڑ آئے؟ نیب ترامیم پر تمام سوالات عمران خان اسمبلی میں بھی اٹھا سکتے تھے۔

وکیل نے کہا کہ اسمبلی میں حکومت اکثریت سے قانون منظور کروا لیتی ہے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے خواجہ حارث سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آج آپ نے اہم نکات بتائے ہیں، بنیادی انسانی حقوق اور ملزمان کی جانب سے قانون سازی اہم سوالات ہیں۔

عدالت نے کیس کی سماعت کل دوپہر ساڑھے 12 بجے تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں