نیب نے 21 سال کے دوران ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں

Supreme Court

اسلام آباد: قومی احتساب بیورو نے 21 سال کے دوران ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات سپریم کورٹ میں جمع کرا دیں۔ نیب کے وکیل نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح کرکے نیب قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔ سپریم کورٹ نے ریمارکس دیئے کہ ترمیم سے لگتا ہے 49 کروڑ روپے تک کرپشن ٹھیک اس سے زیادہ غلط ہے۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے 21 سال کے دوران ہونے والی پلی بارگین کی تفصیلات جمع کرا دیں۔

وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ ترمیم کے تحت دباؤ کا الزام لگنے پر پلی بارگین منسوخ ہوجائے گی اور منسوخ ہونے پر پلی بارگین کے تحت جمع رقم واپس کرنا ہو گی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا پلی بارگین منسوخ ہونے سے سزا کے ساتھ جرم بھی ختم ہو جائے گا؟ وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ ترمیم کی تحت جرم اور سزا دونوں ہی ختم ہوجائیں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پلی بارگین اعتراف جرم ہوتا ہے جس کی سزا میں عدالت پیسے واپس کرنے کی منظوری دیتی ہے اور عدالت کی جانب سے دی گئی سزا قانون سازی سے کیسے ختم ہوسکتی؟

یہ بھی پڑھیں: مدد کی بھیک نہیں، آلودگی پھیلانے والےممالک سے ماحولیاتی انصاف چاہتے ہیں، وزیر اعظم

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ صدر بھی رحم کی اپیل میں سزا معاف کر سکتے ہیں لیکن جرم ختم نہیں ہوتا۔ پلی بارگین جرم کی بنیاد ہے وہ ختم ہو جائے تو جرم کیسے برقرار رہے گا؟ قاتل کا جرم ختم ہو سکتا ہے تو بدعنوانی کے ملزم کا کیوں نہیں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کرپشن 50 کروڑ روپے سے کم ہو تو پلی بارگین کے ساتھ مقدمہ بھی ختم ہو جائے گا اور ترمیم سے لگتا ہے 49 کروڑ روپے تک کرپشن ٹھیک اس سے زیادہ غلط ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ کابینہ اور دیگر فورمز کے ساتھ وزرا اور معاونین خصوصی کو بھی استثنیٰ دے دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ کیا ایمنسٹی اسکیم کا فائدہ اٹھانے والا عام آدمی بھی نیب ریڈار پر آسکتا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ معاشرہ ایسا ہے کہ کاروباری افراد کو کئی جگہ رشوت دینا پڑتی ہے اور کیا کاروباری افراد کو بزنس کرنے پر بھی سزا ملے گی؟

وکیل خواجہ حارث نے کہا کہ عوامی عہدیدار کی منی لانڈرنگ میں سہولت کاری کرنے والا نیب ریڈار پر آئے گا۔ جسٹس منظور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا نیب قوانین میں ترامیم عدالتی فیصلوں کی روشنی میں نہیں کی گئیں؟

وکیل خواجہ حارث نے مؤقف اختیار کیا کہ عدالتی فیصلوں کی غلط تشریح کرکے نیب قوانین میں ترامیم کی گئی ہیں۔


متعلقہ خبریں