سپریم کورٹ نے نیب سے ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا

Supreme Court

اسلام آباد: سپریم کورٹ نے قومی احتساب بیورو (نیب) سے 1999 سے لے کر جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کر لیا۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ نیب قانون میں تبدیلی سے بے نامی دار کی تعریف مشکل بنا دی گئی ہے اور معاملہ اہم سیاسی رہنماؤں کے کرپشن میں ملوث ہونے کا ہے۔ جہاں عوامی پیسے کا تعلق ہو وہ معاملہ بنیادی حقوق کے زمرے میں آتا ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کس آئینی شق کو بنیاد بنا کر نیب قانون کو کالعدم قرار دیں؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ معاشی پالیسز کو دیکھنا سپریم کورٹ کا کام نہیں ہے اور اگر کسی سے کوئی جرم ہوا ہے تو قانون میں شفاف ٹرائل کا طریقہ کار ہے۔

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے کہا میں معاشی پالیسی کے الفاظ واپس لیتا ہوں۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ کہیں ایسا نہ ہو پورا کیس مکمل ہو جائے اور بعد میں پتہ چلے بنیادی حقوق کا تو سوال ہی نہیں تھا، نیب ترامیم کے ذریعے کس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہوئی ہے؟ فرض کریں پارلیمنٹ نے ایک حد مقرر کردی اتنی کرپشن ہو گی تو نیب دیکھے گا۔ سوال یہ ہے کہ عام شہری کے حقوق کیسے متاثر ہوئے ہیں؟

پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ نیب قانون سے زیر التوا مقدمات والوں کو فائدہ پہنچ رہا ہے۔

سپریم کورٹ نے کہا کہ کیا کوئی ایسی عدالتی نظیر ہے جہاں شہری کی درخواست پر عدالت نے سابقہ قانون کو بحال کیا ہو اور شہری کی درخواست پر عدالت پارلیمنٹ کا بنایا ہوا قانون کیسے کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

وکیل نے مؤقف اختیار کیا کہ پبلک منی کا معاملے پر عدالت قانون سازی کالعدم قرار دے سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خاتون کو 46 سال بعد وراثتی حق مل گیا

عدالت نے نیب سے 1999 سے لے کر جون 2022 تک تمام ہائی پروفائل کیسز کا ریکارڈ طلب کرتے ہوئے کہا کہ کتنے کرپشن کیسز ہیں جن میں سپریم کورٹ تک سزائیں برقرار رکھی گئی ہیں اور اب تک نیب قانون کے تحت کتنے ریفرنسز مکمل ہوئے جبکہ نیب قانون میں تبدیلی کے بعد کتنی تحقیقات مکمل ہوئیں۔ ان سب کا ریکارڈ پیش کیا جائے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیئے کہ ایف اے ٹی ایف نے ہمارے قوانین میں نقائص کی نشاندہی کی اور قوانین میں بہتری کے لیے وہ معیار اپنانا ہوگا جو دنیا بھر میں اپنایا گیا ہے۔ کیا نیب ترامیم سے جان بوجھ کر قانون میں نقائص پیدا کیے گئے؟ اور کیا نیب ترامیم مخصوص طبقے کو فائدہ پہنچانے کے لیے کی گئی ہیں؟ اربوں روپے کرپشن کے 280 کیسز پہلے ہی واپس ہوچکے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے پی ٹی آئی وکیل سے استفسار کیا کہ کیا پارلیمان سے بدنیتی منصوب کر رہے ہیں؟

چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ نے 1996 میں ایک کیس میں زندہ درخت کی مثال دی کہ درخت گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بڑھے گا۔ پاکستان میں مختلف مافیاز ہیں، یہ ان پرتشدد ہیں بھی اور نہیں بھی لیکن میں کسی مافیا کا نام نہیں لینا چاہتا۔ دنیا میں جائیداد اور دولت پر ٹیکس لیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: سینٹورس مال میں آتشزدگی ، تکنیکی کمیٹی قائم کرنے کا فیصلہ

انہوں نے کہا کہ یہ سب وہ نکات ہیں جو سیاسی نوعیت کے ہیں اور پارلیمان نے طے کرنے ہیں جبکہ احتساب تندرست معاشرے اور ریاست کے لیے اہم ہے۔ کرپشن دنیا میں ہر جگہ موجود ہے لیکن نیب ترامیم میں کچھ نقائص بھی موجود ہیں اور نقص یہ بھی ہے کہ کچھ سرکاری ملازمین جیلیں کاٹ کر بری ہو چکے ہیں اور کچھ کاروباری شخصیات بھی نیب سے مایوس ہوئی ہیں۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ نیب ترامیم میں کچھ چیزیں بھی ہیں جن سے فائدہ ہوا تاہم ہم نے توازن قائم کرنا ہے۔ کچھ ایسی ترامیم بھی ہیں جو سنگین نوعیت کی بھی ہیں جیسے پلی بارگین اور 500 ملین روپے کی حد مقرر کرنے سے ملزمان کو فائدہ ہوا۔


متعلقہ خبریں