لاہور میں سردی کی آمد کے ساتھ ہی سموگ میں اضافہ


لاہور سمیت پنجاب بھر میں گزشتہ چھ برسوں سے موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی اسموگ کا عفریت سر اٹھا لیتا ہے۔

زہریلا دھواں اور فضا میں پھیلے گرد و غبار کے باعث لاہور کو اسموگ سے آفت زدہ قرار دیا گیا تو لاہور ہائیکورٹ نے اسموگ ایمرجنسی نافذ کرنے کا حکم دے دیا۔

دو ہزار سولہ میں ماہ اکتوبر اور نومبر کے آغاز میں پہلی بار اسموگ نے حملہ کیا تو، ایک آدھ دن تک تو اس کو دھند ہی سمجھا جاتا رہا اور سردی کی آمد کا اعلان سمجھ کر گرم کپڑے نکالنے شروع کر دئیے گئے لیکن سردی کا احساس ہونے کے بجائے ہر شہری کی آنکھوں سے پانی نکلنے پر معلوم ہوا کہ سردی کی آمد نہیں بلکہ آلودگی کا حملہ ہے۔

گزشتہ چھ سالوں سے پورے پنجاب اور خاص طور پر لاہور میں سردی کے آغاز کے ساتھ ہی اسموگ ڈیرے ڈال لیتی ہے۔

اسموگ کا باعث بننے والے عناصر میں صنعتی فضائی مادے، گاڑیوں، فیکٹریوں، کارخانوں کا دھواں، اینٹوں کے بھٹَ، اور فصلوں کی باقیات کو جلانا شامل ہے۔

رواں برس ستمبر کے آخری ہفتے میں صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کی جانب سے لاہور کو اسموگ سے آفت زدہ قرار دیا گیا،، جس پر ہائیکورٹ نے پنجاب میں اسموگ ایمرجنسی کے نفاذ کا حکم سنایا۔

متعلقہ اداروں کے حکام کے مطابق سموگ ایمرجنسی کے تحت آلودگی کا باعث بننے والی فیکٹریاں اور کارخانے فوری بند ہوں گے۔

دو ہفتے کے اندر اندر ائیر کوالٹی جانچنے کے آلات خریدے جائیں گے۔پی ڈی ایم اے آفس میں کرائسز روم قائم ہو گا۔ ہر ضلع میں انسداد سموگ اقدامات پر عملدرآمد کے لئے ٹیمیں تشکیل دی جائیں گی۔

سموگ ایمرجسنی کے دوران لاہور کے چار سو سے زائد صنعتی یونٹس پر سکربر لگانے کے ساتھ ساتھ چمنیوں پر کیمرے بھی انسٹال کرائے جا رہے ہیں ،، تاکہ فیکٹریوں سے نکلنے والا دھواں مانیٹر کیا جا سکے۔

ہر طرف آلودگی ہی آلودگی، لاہور اسموگ سے آفت زدہ قرار

ڈائریکٹر محکمہ ماحولیات علی اعجاز کے مطابق ٹیمیں فیکٹریوں میں لگے سکربرز چیک کر رہی ہیں۔ اسکے ساتھ ساتھ آن لائن مانیٹرنگ کا میکنزم بنایا جا رہا ہے تاکہ سموگ سے بچا جا سکے۔

سموگ کا سیزن شروع ہونے کے بعد سے آنکھوں اور سانس کے مریضوں کی اسپتالوں میں آمد میں تقریبا 20فیصد اضافہ ہو گیا ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق سموگ کے اثرات میں آنکھوں میں چبھن، سانس لینے میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ڈاکٹرزکا کہنا ہے کہ فضاء میں پھیلا زہریلا دھواں گلے میں درد،، آنکھوں اور جلد پر جلن سمیت پھیپھڑوں کے موذی امراض کا باعث ہے۔

ڈاکٹر عامر خان کے مطابق فضائی آلودگی کی وجہ سے کچھ امراض ایسے ہیں جو انسانی صحت کو مستقل بنیادوں پر نقصان پہنچاتے ہیں۔

ڈاکٹر عروسہ کہتی ہیں کہ اسموگ کے سیزن میں دمہ کے مرض میں مبتلا افراد، بچوں اور بوڑھوں کے متاثر ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔ جو مزدور فیکٹریوں یا بھٹوں پر کام کرتے ہیں وہ زیادہ اس سے متاثر ہوتے ہیں کیونکہ وہاں دھواں زیادہ ہوتا ہے۔

ماہرین کے مطابق اسموگ کے خاتمے کیلئے زیادہ سے زیادہ شجرکاری ناگزیر ہے۔

بے ہنگم ٹریفک مسائل پر قابو پانے کیلئے ہنگامی اقدامات اٹھائے جائیں جبکہ گاڑیوں کی فٹنس، تعمیراتی سائٹس پر گردو غبار کو کنٹرول اور فیکٹریوں کو ریگولرائز کرنے کے ساتھ ساتھ اینٹوں کے بھٹوں کو جدید زگ زیگ ٹیکنالوجی پر منتقل کرنا ہو گا۔


متعلقہ خبریں