مولا جٹ یا مولا نت؟پہلی فلم کا آخری ریویو؟


مولا جٹ کا ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں بھارت کیخلاف پاکستان کی یادگار جیت سے کیا تعلق؟ ورلڈ ٹی ٹوئنٹی میں کوہلی کے شاندار چھکے اور بیٹنگ دیکھ کر نوری کیوں یاد آیا؟ کیا مولا جٹ 5 سو کروڑ تک بھی کما سکتی ہے؟

کیا مولا جٹ پاکستان کی پہلی فلم ہے؟  اگر مولا جٹ  پہلی مکمل فلم ہے تو کیوں ہے ؟ مولا جٹ کا ہیرو کون  ہے؟ مولا جٹ کا ولن کون ہے؟ یہ مولا جٹ پرانی والی مولا جٹ کا سیکوئل یا ریمیک؟ کیا یہ والی مولا جٹ بالی وڈ کی فلم زنجیر، یادوں کی بارات شعلے، گلیڈیئٹریا، باہو بلی پھر اگنی پتھ سے متاثر ہے؟ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کیا واقعی پاکستان کی سب سے بڑی، مہنگی، معیاری اور کامیاب ترین فلم ہے؟ کیا فلم میں فواد خان کا ڈبل رول ہے؟ کیا فلم سو کروڑ کا پہاڑ سر کر پائے گی؟ کیا  مولا جٹ کی کہانی یا اس کے ریویوز سننے کے بعد فلم سینما میں دیکھنی چاہیے؟کیا چاکلیٹی ہیرو فواد خان پر ایکشن جچا؟کیا حمزہ علی عباسی نے فواد خان کو اسکرین پر کلین بولڈ کردیا؟ کیا فلم میں ماہرہ خان کو ہونا ہی نہیں چاہیے تھا؟ مولا جٹ کس پنجاب کی اور کب کی کہانی ہے؟کیا مولا جٹ میں گانے یا میوزک ہے؟ کیا کمزور دل حضرات اور بچوں کو فلم دیکھنی چاہیے؟؟؟مولا جٹ دیکھتے وقت کس بات کا خاص خیال رکھنا چاہیے؟؟ کیا مولا جٹ ایک بار دیکھنے کے بعد دوبارہ دیکھنے کی فلم ہے؟ بلال لاشاری نے اپنے ساتھ سب سے بڑا ظلم کیا کیا؟؟؟

سب سے پہلے سو باتوں کی ایک بات، کوئی لمحہ ضائع کیے بغیر، اس ریویو پر آگے بڑھنے کے بجائے”دی لیجنڈ آف مولا جٹ“ دیکھنے کیلئے سینما کی ٹکٹ بک کرائیں۔ یہ وہ فلم ہے جس کیلئے سینما گھر بنائے جاتے بڑی اسکرینز انتظار کرتی ہیں، ہاوس فل کے بورڈ ز کھڑے کیے جاتے ہیں۔ یہ وہ فلم ہے جس کیلئے پاکستانی سینما گھروں نے 75 سال انتظار کیا ہے۔ یہاں یہ کہنا غالبا غلط نہ ہو کہ دی لیجنڈ آف مولا جٹ کی پہلی تعریف یہی ہے کہ یہ پاکستان کی پہلی مکمل فلم ہے۔

جی ہاں یہ فلم صرف اپنے ایکشن پر نہیں، اپنی کہانی پر نہیں، اسٹار کاسٹ پر نہیں،گانوں پر نہیں،کامیڈی پر نہیں، عکاسی یا اپنے مکالموں پر نہیں، تشدد پر نہیں رومانس پر نہیں، کامیڈی پر نہیں، ڈسٹری بیوشن پر نہیں، کنٹروسری پربھی نہیں،ریلیز  پر بھی نہیں پروموشن پر نہیں،صرف  بجٹ پر بھی نہیں چلے گی بلکہ یہ ایک مکمل  فلم کی طرح  سینما کی  بڑی اسکرین پر سر پٹ  دوڑے گی کیونکہ یہ حقیقی فلم ہے پہلی حقیقی پاکستانی فلم۔ اس فلم کا جس معیار پر کسی دوسرے ملک کی فلم سے مقابلہ کرنا ہے کیا جاسکتا ہے۔اس فلم کیلئے کہا جاسکتا ہے کہ ”جس کسی فلم  بین نے”مولا نو بڑی اسکرین پر ویکھیا نہیں وہ ابھی تک جمیا ہی نہیں“

مولا جٹ ایک مکمل فلم کا پیکج ہے جس کا ایک ایک سیکنڈ صرف بڑے پردے کیلئے بنا ہے۔ فلم کی کہانی سدا بہار ہوگی لیکن فلم کا اسکرین پلے ایسا ہے جسے لکھ کر شاید بلال لاشاری نے اپنا ”گنڈاسہ“ معاف کیجیے گا ”قلم“ توڑ دیا ہوگا۔ فلم پر سب نے بہت محنت کی لیکن یہ بلال لاشاری کی مولا جٹ ہے جس کیلئے انھوں اپنا پنجاب اپنا مولا اور اپنا نوری نت، اپنی سرزمین، اپنا آسمان، اپنا  نشہ،ا پنا زمانہ جنم دیا۔ وہ پنجاب جو پرانی مولا جٹ کے زمانے سے کہیں زیادہ سال پرانا ہے جہاں جیل نہیں قید خانہ ہے گولیاں یا بندوق نہیں،گنڈاسے،ڈنڈے اور کلہاڑیاں ہی ہتھیار ہیں۔کھیت ہیں کھلیان ہیں لیکن حیوانوں کے ظم کی وجہ سے انسانوں کی بستیاں ویران ہیں۔ مولا کا گنڈاسہ بھی تھور کے ہتھوڑے سے کہیں زیادہ مہلک خطرناک اور جان لیوا ہے، سردار جٹ کے اس ہتھیار کی شان ہی کچھ اور ہے۔

فلم پر کام اور محنت کی بات ہو تو مولا کے چہرے پر ایک طرف بال دوسرے طرف نشان، مکھو کے ہونٹ،نوری کی آنکھیں، مکھا کا دانت سب اپنی مثال آپ ہیں۔ باقی جس کو غلطیاں بلکہ کیڑے نکالنے ہیں تو وہ فریم فریز کر کر کے بھی مکھو کی جوتی ڈھونڈ کر بھی نکال سکتا ہے یا نوری سمیت سب کرداروں کے دانتوں کی چمک۔

فلم کا بجٹ کتنا ہوگا یہ تو وکی پیڈیا 40 کروڑ بتارہا ہے لیکن اس پر لگنے والی محنت کی لاگت انمول ہے، فواد خان کی اکھاڑے میں اینٹری کا منظر کیا ان کے ”زور بازو“ کے بغیر ہوسکتا تھا اور یہ ڈھائی کلو کا ہاتھ بنانا کوئی بچوں اور دنوں کا کھیل نہیں اس کیلئے  جان جوکھم میں ڈالنی پڑتی ہے۔ فلم کا جو زمانہ ہے اس میں اشتہاروں کی جگہ بنتی تھی نہ ہی یہ ”حماقت“ کی گئی۔ آسان لفظوں میں یہ حالیہ برسوں کی غالبا واحد فلم ہوگی جس میں کوئی اشتہار نہ ہی انگریزی زبان کا کوئی لفظ مثلا گلاس کا استعمال ہوا ہے۔

فلم میں فواد خان کا کوئی ڈبل رول نہیں لیکن فلم کے شروع میں کچھ اینگلز آپ دیکھ کر چونک جائیں گے کیونکہ آپ کو جو فواد خان لگے  وہ سردار جٹ ہوگا۔ سردار جٹ کے کردار کی کاسٹنگ  بھی انتہائی پرفیکٹ ہے، بلال نے شروع میں ایسے اینگلز شوٹ کیے کہ اس”اداکار“ سے اچھا کوئی فواد خان کا باپ بن ہی نہیں سکتا تھا۔ اس کردار کی ویسے کوئی سرپرائز اینٹری بھی نہیں کیونکہ اِن کا ایک لانگ شوٹ فلم کی پہلی جھلک میں یعنی تین سال پہلے دکھایا جاچکا ہے۔

فلم کے دو ہیرو ہیں فواد خان اور حمزہ علی عباسی، ظاہر ہے نت کے بغیر جٹ کی بھی کوئی اہمیت تھی ہی نہیں۔ حمزہ علی عباسی کو اگر ولن کہا جائیگا تو ولن کی تعریف ہی بدل جائیگی مطلب فلم میں کوئی تو ایسا کام ہوتا جسے ہم  دیکھ کر اس آدمی کو برا سمجھیں اس ”برے آدمی“ نے فلم میں صرف اس کو مارا جس نے کہا ”آ ”نت“مجھے مار“

آپ فلم کی کہانی پڑھیں یا ریویو یا چھوٹے کلپس  ضرور دیکھیں لیکن فلم سینما میں ضرور دیکھیں کیونکہ کوئی لفظ کوئی جملہ اس فلم کے منظر نامے سے انصاف کر ہی نہیں سکتا۔ مولا جٹ دیکھنے کی فلم ہے  بار بار دیکھو بلکہ ہزار بار دیکھو۔

کون کہتا ہے مولا جٹ میں میوزک نہیں گانا نہیں، فلم میں گانا ہے اور ڈنکا بجا کر ہے ایسا گانا ہے جس کا انداز بھی سب سے جدا ہے بالکل اسی طرح جس طرح جھولے پر چڑھ کر مولا اور مکھو رومانس کرتے ہیں جی ہاں فلم میں رومانس بھی ہے اور بہت قریب سے ہے۔

فلم ری میک ہے یا سیکوئل یا کاپی؟  یہ مولا جٹ اصل میں بلال لاشاری کی مولا جٹ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں یہ فلم ری میک ہے جس میں کئی تبدیلیاں ہیں لیکن یہ فلم سیکوئل نہیں ری میک کی کیٹگری میں آنی چاہیے؛ بالکل ایسے جیسے امیتابھ کی اگنی پتھ کا ری میک ریتھک روشن کے ساتھ بنایا گیا جس کا زمانہ بھی اور تھا اور کچھ کردار بھی پلس مائنس لیکن روح، انتقام اور بدلے کی آگ ایک۔۔۔

مولا جٹ کے ساتھ سب سے بڑا خوف تھا کہ اس کے ساتھ وہ نہ ہو جو شعلے کے ساتھ رام گوپال ورما نے  یا گبر کے ساتھ ببن نے کیا لیکن یقین مانیئے کہ اس مولا جٹ نے اُس مولا جٹ کی شان میں چار نہیں چار سو چاند لگائیں ہیں۔

 

مولا جٹ میں تشدد ہ ہے اور کھل کر ہے، شکر ہے بلال نے اپنے اوپر کوئی روک ٹوک نہیں لگائی۔بلال رومانس میں تو ایک ”حد“ سے آگے نہیں جاسکتے تھے لیکن”وائلنس“ میں انھوں نے ساری حدیں پار کرلیں۔ایسا تشدد میں نے حالیہ برسوں میں صرف  رام گوپال وراما کی کلاس فلم ”رخت چریترا“ میں دیکھا۔ یہ فلم کمزول دل حضرات اور بچوں کیلئے بالکل بھی نہیں ہے۔

مولا جٹ پر وائلنس دکھانے پر ضرور تنقید ہوگی اُس وقت بھی ہوئی تھی لیکن نفسیات اور نظریات کے مطابق زیادہ تر لوگ اس سے اپنی بھڑاس اسکرین پر نکالیں گے، ہاں کچھ اپنے اندر نفسیات یا جبلت کی وجہ سے ایکشن کی طرف جائیں گے لیکن یہ بات طے ہے اس فلم کو دیکھنے کے بعد سب سکتے میں آجائیں گے اور وہ فلم کو کبھی بھلا نہیں پائیں گے۔۔۔

مولا جٹ پکی پکی سو کروڑ کی پہلی پاکستانی فلم ہوگی بلکہ اوور سیز اور ڈیجیٹل رائٹس کے ساتھ یہ فلم دو سو اور چین میں ریلیز کے ساتھ یہ فلم 300 کروڑ کا بزنس کرپائے گی۔اگر یہ  فلم بھارت میں ریلیز ہوسکتی تو مولا جٹ 500کروڑ کا بزنس آسانی سے کرلیتی۔۔۔

یہ مولا جٹ  75سال میں پہلی مکمل فلم ہے، بلاشبہ بول اور”خدا کیلئے“کی اسٹوری بہت بولڈ تھی،ارمان،آئینہ، بندش لاجواب تھیں، ایکٹر ان لاء، طیفا، پنجاب نہیں جاونگی، پروازاور جوانی میں بہتری بہت آئی تھی لیکن مکمل سینما فلم کے ”پیکج“ کی فہرست میں یقینا مولا جٹ ان سے آگے بہت آگے نظر آئے گی۔ اب آئینہ کی طرح فلم میوزک، ڈایریکشن اور فلم کے لیڈ پئیر پر بھی فلم نہیں چلتی ہر”فلم بین“ کے ہاتھ میں چھوٹا سا موبایل ہے اور دنیا کے کسی بھی ملک کی بڑی سے بڑی فلم تک فوری پہنچنے کی سکت بھی۔

آج کے دور میں کوئی بھی فلم اگر فلم بینوں کو سینما تک کھینچ لائے اس سے بڑی کامیابی ہو ہی نہیں سکتی اور خصوصا پاکستان میں جہاں اب فلم دیکھنا نہ ہر کسی کا شوق ہے نہ ہی ان کی جیب اس بات کی اجازت دیتی ہے۔ آج کا”فلم بین“ جب پاکستانی فلم دیکھنے سینما جاتا ہے تو وہ پانچ سو کروڑ کے بجٹ کی باہو بلی یا پانچ ارب کی ایونجرز سے پاکستانی فلم کا مقابلہ کرتا ہے اور پہلی بار شاید اسے چالیس کروڑ کے بجٹ میں مولا جٹ دونوں غیروں سے بہت زیادہ زیادہ اپنا لگتا ہے، کیونکہ یہ اپنا ہوتا ہے۔

کسی بھی فلم کو کاپی کہہ دینا بڑا آسان ہے۔ اب کسی کو تھپڑ مارنے کے دنیا میں دو یا چار طریقے ہی ہونگے، ناراض، غصے اور پیار کے بھی جذبات دکھانے کے انداز بھی سات آٹھ  ہی ہونگے۔ہاں گاڑی چلانے کے طریقے دس بیس ضرور ہونگے، تلوار اٹھانے ڈنڈنے چلانے کی مہارت دکھانا شاید سو انداز سے ممکن ہوں لیکن فلمیں لاکھوں نہیں تو ہزاروں  بن چکی ہیں۔ مولا جٹ میں بھی ایسی کئی جھلک ہیں جیسے شعلے کے“کتنے آدمی تھے”یا”زنجیر“ کی طرح بچے کے سامنے اپنے ماں باپ کے قتل کا فلیش بیک لیکن  بلال لاشاری کی مولا جٹ میں تو“وہ”انتقام ہے ہی نہیں اس مولا جٹ میں تو ”اینڈ“ مولا جٹ کے“دوسروں ”کیلئے انصاف پر ہوتا ہے۔ مولا جٹ کے کردار میں جب ”یوٹرن“ آتا ہے جب اسے اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کی مکمل داستان مل جاتی ہے۔ اس کی بے چینی ختم ہوجاتی ہے سینے میں انتقام کی آگ پر انصاف کا شعلہ غالب آجاتا ہے۔ اپنے ”گنڈاسے“ سے پہلا انصاف کرنے کے بعد مولا”پھول“  چومتا ہے خوشبو سونگھتا ہے اور دل کا حال گن گناتا ہے۔

مولا جٹ میں جتنے مرکزی کردار ہیں انھوں نے اپنے کردار کھل کر ادا کیے، جس کو جو کردار دیا گیا جو روپ دیا گیااس نے وہ اپنایا۔ مودے میں شرارت، دوستی، جان نثاری اور محبت بچپن سے آخر تک ایک جیسی  دکھائی گئی۔ فارس شفیع کے ایک ایک مکالمے اور شرارت پر سینما میں لوگ کھل کر ہنسے ان کی کامیڈی ٹائمنگ بہت زبردست تھی۔ مودا فلم میں تیسرا شخص ہوتا ہے جو مولاجٹ کی جان بچاتا ہے۔ایک کا نام ہم نے بتادیا، دو کے نام آپ فلم دیکھ کر جان جائیں گے اور تیسرے کی شناخت جان کرچونک جائیں گے۔

دارو یعنی حمیمہ کے انداز ہی نرالے تھے ان کی چال ڈھال وبال سب کے سب مکھو یعنی ماہرہ سے الٹ تھا۔ایک”محبوب مشرق“ تھا تو دوسرا ”معشوق مغرب“۔دار و کے کردار کیلئے اورایکٹنگ لازم تھی جو نظر بھی آئی۔دارو کا ”انصاف“ فوری تھا اور ”محبت“پکی۔دارو اور مولا کے دونوں ٹاکرے لاجواب تھے ایک میں حیرانگی کا غلبہ رہا دوسرے میں ”ٹھکرانے“ کی ذلت۔آخری ٹاکرے میں جب دارو مولا کو ”مستقبل“ کا بگل بجاتی ہے تو مولا کا جواب سینما میں سیٹیاں بجوادیتا ہے۔

مکھا یعنی گوہر رشید فلم کا  ولن جو اپنوں کا نہیں، کسی کا بھی نہیں۔کون سی برائی ہے جو اس میں نہیں، یہاں بھی فلم کی ٹیم اور ایکٹرزکو شاباش کیونکہ مکھا کو دیکھ کر ہر فلم دیکھنے والے کو اتنی ہی گھن محسوس ہوگی جتنی نفرت۔فلم میں تو زہریلا  بچھو بھی اس مکھا کے سامنے معصوم لگ رہے تھے۔

جیوا اور جگو، یعنی شفقت چیمہ اور نیئر اعجاز فلم انڈسٹری کے دو بڑے برے آدمی لیکن یہاں معلوم نہیں مولا، نوری اور مکھا کے سامنے یہ کردار دب کیوں گئے۔ ایسا نہیں تھا کہ کردار کمزور تھا بس معلوم نہیں یہ دونوں اپنا اثرکیوں نہیں چھوڑ سکے کیونکہ ان سے کم طوالت والا کردار فلم کے شروع میں ہی  مر کر بھی اپنا اثر چھوڑنے میں کامیاب رہا تھا۔

ماہرہ خان کا کردار چلبلی کھلنڈری”مکھو“ کا ہے جو بچپن سے ہی صرف مولا کی ہوتی ہے۔یہ کردار ماہرہ خان کیلئے ہی بنا تھا انھوں نے لاکھ مخالفت کے باوجود پنجابی بولی اور کھڑاک سے بولی اسکرین پر  ”شیرنی“ بنیں اور ”شِیرنی“ کے ساتھ پیار بھری بولی بولی۔

جیسے کئی بار بات ہوچکی ہے کہ بلال لاشاری نے یہ فلم صرف اپنے زاویئے سے بنائی اسی لیئے انھوں نے  روایتی پنجابی ”اسٹیریو ٹائپ“ فلموں کی ہیروئن نہیں لی اور نہ ہی اِن دونوں کوکسی بھی ”انداز“ یا ”لباس“  سے اُس طرح دکھانے کی کوشش کی۔

فلم مولا جٹ جس طرح بن کر سامنے آئی ہے اس کے بعد بلال لاشاری کیلئے اِس معیار اِس کامیابی کو پھر  سے حاصل کرنا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔ دنیا بھر میں بہت کم ایسی مثالیں ہیں جو ایک بار اپنے کام کی معراج حاصل کر کے اس کامیابی کو دہراسکے ہوں۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان میں فلم بنانے والوں کیلئے ایک معیار طے ہوچکا ہے کہ انھیں آگے سے  مولا جٹ جیسی نہیں تو کم سے کم اس سے ”آدھی“ فلم لگنے  والی فلم تو بنانی ہوگی ورنہ  ناکامی کی صورت میں ان کے پاس کسی قسم کا کوئی بہانہ نہیں ہوگا۔

اِس مولا جٹ کو ”ری میک“ لکھنے پر شاید کچھ اعتراض درست ہو لیکن یہ ”ری میک“ نہیں تو کیا ہے کیونکہ اس میں سب وہی کردار اور وہی اِن کرداروں کی ”جبلت“۔ ہاں  بلال لاشاری نے اپنے نظریے اپنے زاویئے سے کہانی کو بڑا کر کے ”نیا“ کر کے”پرانا“ کر کے ”محنت“ کر کے ”بھروسہ“ کر کے ”مولا جٹ“ کو پوری دنیا کے سامنے لاکھڑا کیا۔ اس فلم کے کسی بھی منظر، سین یا مکالمے کو ”کاپی“ کہنا ”فلم کرافٹ“ کی توہین ہوگی۔ اِس فلم میں ”وحشی جٹ“ اور ”مولا جٹ“ دونوں سے کہانی اور کردار لیے گئے اور پھر ”بلال ری میک“ بنایا گیا۔

مولا جٹ کے”منفرد ری میک کیس“ کو سمجھنے کیلئے  ایک مثال ”اگنی پتھ“ کی تھی  اور دوسری ”شعلے“ کی ہے۔ شعلے 1975میں بنی اس سے پہلے ”میرا گاوں میرا دیش“1971 میں ریلیز ہوئی تھی۔ دونوں فلمیں گاوں کی تھیں، دونوں میں ڈاکو تھا، ایک میں ”جبر“ دوسرے میں ”گبر“ لیکن دونوں فلموں کا ”مرکزی خیال“ بھی ملتا جلتا تھا لیکن ”فلم کرافٹ“ میں دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔ دلچسپ بات  دیکھیے اگر شعلے کے ٹھاکر کا ”ڈی این اے“ نکالاجائے تو وہ ”میرا گاوں میرا دیش“ کے جیانت سے جاکر مل جائے گا جن کے بیٹے امجد خان نے گبر کا کردار ”امر“ کردیا، یہی شعلے جب کئی سالوں بعد بالی وڈ کے شہنشاہ کے ساتھ ری میک کی گئی تو وہ  فلم باکس آفس پر”آگ“لگانے سے پہلے ہی بجھ گئی۔

اسی طرح جس کو ملانا ہوگا وہ مولا جٹ کے آخری بدلے کو  سلمان خان کی ”وانٹیڈ“ سے ملادے گا یا ”کتنے آدمی“ کا سرا ”شعلے“ تک جا کر چھوڑ کر مقبولیت پکڑنے کی کوشش کرے گا۔

آپ نے اِدھر ادھر کی نہیں سننی صرف یہ فلم سینما میں جاکر دیکھنی ہے کیونکہ یہ مولا جٹ ہے ”اینٹر ٹینمنٹ،اینٹر ٹینمنٹ اور اینٹر ٹینمنٹ“ جس کیلئے آپ سب کو ہم سب کو انتطار تھا باقی ”کچھ تو لوگ کہیں گے لوگوں کا کام ہے کہنا“۔آپ نے فلم دیکھ کر صرف یہ کہنا ہے ”شکریہ بلال لاشاری“۔

مولا جٹ میں فواد خان اور حمزہ علی عباسی نے دشمنی اور بدلے کا نیا رنگ دے دیا، کتنی محنت کی ہوگی، کیا کیا جھیلا ہوگا۔ ہیرو کیا ہوتا ہے یہ فواد خان ایک ایک سیکنڈ میں دکھاتے ہیں۔ ایسا غصہ،ایسی نظر،ایسی ناراضی،ایسی بے گانگی، ایسی محبت، ایسی مسکراہٹ،ایسی نفرت، ایسی اکڑ،ایسی اپنائیت،ایسی شرارت، توبہ ہے نظر تو پھر لگنی تھی نا ”سوہنیو“۔

جی ہاں مولا جٹ ایسی فلم نہیں تھی جہاں کردار کو صرف ایک جیسے یا محدود  تاثرات دکھانے تھے، مولا ”دوست“ کیلئے کچھ اور تھا دشمن کیلئے کچھ اور،ایک”دارو“ اس کی ساتھی تھی دوسری ”دارو“سے وہ دور رہنا چاہتا تھا،بدلے کی آگ میں کچھ اور تھا اور انصاف کے شعلوں کیلئے کچھ اور، گنڈاسہ اس کے قریب تھا اورانتقام اس کا نصیب،فلم میں ایک ایک لاٹھی مولا نہیں فلم دیکھنے والا چلا رہا ہوتا ہے۔صرف سکہ ہی میز پر پٹخنا ہو تو یہ پٹخ بھی مولا سے ہی سیکھنی چاہیے۔

مولا جٹ اور نوری نت وہ کردار ہیں جو قسمت سے ہی ملتے ہیں، امیتابھ بچن کو دیکھ لیں ساری عمر گبر کی تمنا کی اور جب گبر بنے تو قسمت نے ساتھ نہیں دیا۔ یہاں مولا اور نوری تو پہلے سے ہی امر تھے لیکن فواد اور حمزہ علی عباسی نے ان کرداروں میں اور جان ڈال دی۔ اگر دیکھنا ہے کہ ”پرفکیشن“میں ”امپروومنٹ“ کیسی ہوتی ہے تو مولا جٹ کے یہ دونوں کردار دیکھ لیں۔فلم دیکھنے والے نوری نت کو کیسے ولن کہیں؟ نہ وہ نوری نت ولن تھا نہ یہ نوری نت ولن ہے۔ ایسے اصول ایسے ضابطے ایسے مزاج ایسی خواہش  اور ایسا دی اینڈ کہ واہ ”سواد آگیا سوہنیو“۔ان دونوں کے تاثرات، انداز، مکالمے،ایکشن پر گھنٹوں لکھا جاسکتا ہے لیکن ان پر لکھنے سے اچھا ہے یہ سارا وقت انھیں بڑی اسکرین پر بار بار دیکھ کر بتایا جائے۔

فلم میں خامیاں ہونگی، ہوسکتا ہے بے شمار ہوں، لاتعداد ہوں کیونکہ کوئی بھی فلم غلطی کے بغیر نہ بنی ہے نہ ہی بن سکتی ہے لیکن آنکھوں کو دو جگہ جھٹکا برا لگا اور آسانی سے پکڑا گیا۔ بلال کیونکہ خود ڈی او پی ہیں اور ایڈیٹر بھی تو ان سے دو جگہ ایسی کیوں بھول ہوئی کیونکہ یہ بھول تو آسانی سے ایڈیٹنگ پر پکڑی جاسکتی تھی۔ ایک جگہ جب رجو اپنے منگ کو ستا کر بھاگتی ہے دوسرا جب مولا کلائمکس سے پہلے اپنی ماں سے ملتا ہے۔ دونوں بار کیمرہ ”یہاں“ سے”وہاں“ ہوجاتا ہے اور آنکھوں کو سیدھا  جھٹکا مارتا ہے۔

آپ  یقینا یہ سوچ رہے ہونگے اس فلم کا پاک بھارت جیت سے کیا تعلق؟ جب سے آنکھ کھولی ایک تو ”نازک دور“ گزرنے کا انتطار تھا جو ابھی تک  جاری ہے اور آگے بھی جاری رہنے کا امکان ہے، دوسرا بالی وڈ کے سامنے کسی پاکستانی فلم کو ”فلم“ کہنے کی تمنا تھی اور تیسر خواہش  ورلڈ کپ میں بھارت کیخلاف پاکستان کی جیت کی تھی ۔ گزشتہ سال تک میچ بعد میں ہوتا تھا اور ہارنے کا غم پہلے منالیا جاتا تھا۔ پھر میچ ہوا اور وہ ہوا کہ جیت کے بعد سکتے میں آگے یعنی انہونی ہونی ہو ہی گئی۔

اسی طرح جب بھی سینما میں فلم دیکھتے تھے اچھی سے اچھی پاکستانی فلم کئی پیمانوں پر بالی وڈ سے کئی پیچھے نظر آتی تھی۔ مولا جٹ دیکھی تو سکتہ ایسا طاری ہوا کہ یقین ہی نہیں آیا کہ پہلی”مکمل“ پاکستانی فلم دیکھ چکے ہیں جو سینما کیلئے بنی تھی۔ فلم کو پہلی مکمل فلم قرار دینے کیلئے فلم کا ساونڈ کا حوالہ دینا بہت ضروری ہے کیونکہ اچھی سے اچھی پاکستانی  فلم ساونڈ ڈیپارٹمنٹ میں کمزور تھی اور جس فلم کا ساونڈ سینما والا تھا وہ فلم دیکھنے میں اتنے معیار کی نہیں تھی۔

فلم کے شروع میں ہی جب مکھا اپنے آگے پھیلے ہوئے ہاتھ میلے کرنے کیلئے گھوڑا دوڑاتا ہے تو آواز سے ہی دل کانپ جاتا ہے کیونکہ اس کے بعد فلم دیکھنے والوں کی لگام بھی مولا اور نوری تھام لیتے ہیں او ر اس ریس کے سب سے بڑے کھلاڑی بن کر سامنے آتے ہیں۔

اِس مولا جٹ سے پہلے پاکستان کی بھارت کیخلاف یاد گار جیت دیکھی اور مولا جٹ دیکھنے کے بعد بھارت کی پاکستان کیخلاف آخری بال پر جیت۔ میچ یقینا پاکستان کو جیتنا چاہیے تھا، ہماری دعائیں ہمارا سب کچھ پاکستان کے ساتھ تھا،ہے اور رہے گا لیکن کوہلی کی جادوئی اننگ اور پھر اس پر کھڑے کھڑے ”بیک فٹ“ میلبورن پر جب چھکا  دیکھا  تو منہ سے نوری کا جملہ زور سے نکلا ”بس کر سونیا،بس کر، کسے دی نظر نہ لگ جائے“۔ یاد رہے یہ فلم کے دی اینڈ سے کچھ پہلے وہ فلم کا وہ پہلا منظر ہوتا ہے جب مولا اور نوری کا پہلی بار ٹاکرا ہوتا ہے۔

 

آخر میں ایک راز کی بات مو لا جٹ اور نوری نت کا غصہ، اکڑ، طاقت، مکالمے تو سب سے بڑھ کر ہے ہیں لیکن جہاں جہاں ان دونوں نے فلم دیکھنے والوں کو ہنسایا ہے وہاں بھی یہ  دونوں فلم کے ہردوسرے  اداکار سے آگے بہت  نظر آئے۔ کاش اس فلم کا نام مولاجٹ کے بجائے”مولا نت“رکھا جاسکتا تاکہ مولا  جٹ سے شروع ہونے والا یہ ”اختتام“ نوری نت پر ہوتا تو بھی کیا خوب ہوتا۔ اب مولا کو”اینٹی ہیرو“ کہیں یا حمزہ علی عباسی کو ”اینٹی ولن“ اس پر تو ابھی تک کنفیوژن ہے لیکن فلم دیکھنے والوں کیلئے اب یہ بات ضرور ”کرسٹل کلیئر“ ہے  ”جنھے مولا جٹ نئیں ویکھی اونہے کجھ نئیں ویکھیا“۔

نوٹ:

1۔۔۔ ہر فلم بنانے والا فلم پر باتیں بنانے والے سے بہتر ہے۔۔

2۔۔۔ فلم سینما پر ہی  دیکھیں، کیونکہ فلم سینما کیلئے ہی بنی ہے۔ آپ کے ایل ای ڈی یا موبائل فون یا لیپ ٹاپ کیلئے نہیں۔۔

3۔۔۔ فلم کا ریویو صرف ایک فرد کا تجزیہ ہوتا ہے جو کسی بھی زاویے سے غلط یا صحیح بھی ہوسکتا ہے اور اکثریت کی رائے سے مختلف بھی۔

4۔۔۔ فلم کی کہانی میں جھول لازمی ہوتے ہیں کیونکہ حقیقت میں تو ڈھائی گھنٹے میں ڈھائی ہزار سال کیا ڈھائی سو سال تو کیا،ڈھائی سال کیاِڈھائی مہینے کیا،دو گھنٹے اکتیس منٹ بھی نہیں سماسکتے۔

5۔۔۔ کہانی میں یا ایڈیٹنگ میں ”جمپ“ ہوگا توہی ”کٹ“ہوگا۔

6۔۔۔ غلطیاں صرف فلم بنانے والے سے نہیں ہم سے بھی ہوسکتی ہے آپ سے بھی۔۔تو آپ اگر کوئی غلطی دیکھیں اس کی نشاندہی ضرور کریں۔ (شکریہ)۔

بشکریہ جیو نیوز و اخبار جہاں

 


متعلقہ خبریں