ہم نیوز پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان سے انٹرویو میں سخت سوال پوچھنے والی جرمن صحافی کو’’ قتل اور زیادتی کی دھمکیاں‘‘ دیے جانے کی حقیقت سامنے لے آیا۔
گزشتہ چند روز سےسوشل میڈیا پر ایک خبر گردش کر رہی ہے جس میں الزام لگایا گیا ہے کہ ڈی ڈبلیو ٹی وی (DW) سے تعلق رکھنے والی جرمن صحافی میلیسا چان کو چیئر مین پی ٹی آئی عمران خان سے انٹرویو میں سخت سوالات پوچھنے پر سوشل میڈیا پر قتل اور زیادتی کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔
عمران خان کے ڈی ڈبلیو کو دئیے گئے انٹرویو کے بعد سب سے پہلے روزنامہ جنگ کی ویب سائٹ نے خبر شائع کی کہ صحافی میلیسا کو عمران خان سے سخت سوالات پوچھنے پر قتل اور زیادتی کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
جس کے بعد متعدد میڈیا ہاوسز بشمول نیو نیوزاور ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹس نے بھی اس خبر کو اسی زاویے سے شائع کیا۔
سوشل میڈیا پر اس خبر کے چلتے ہی پی ٹی آئی کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا اور سوشل میڈیا پر خبر جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
ہم فیکٹ چیک
خبر کی تہہ تک پہنچنے کے لیے ہم نیوز سے وابستہ نیوز پروڈیسر مغیث علی نے ٹوئٹر پر جرمن صحافی میلیسا چان سے سوال کیا کہ روزنامہ جنگ کے مطابق عمران خان کا انٹرویو لینے کے بعد آپ کو قتل کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں جس کے باعث آپ نے ٹوئٹر پر کمنٹ سیکشن بند کر دیا ہے کیا یہ سچ ہے؟
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ان کی تحقیق کے مطابق جرمن صحافی نے ٹوئٹر سیکشن پہلے سے ہی بند کر رکھا تھا۔
Hi! Melissa
According to Jang Newspaper you have received death threats & you have closed the comment section after Imran Khan’s interview. Is it true ?
According to my research, you have closed the comment section long ago@melissakchan pic.twitter.com/jaodfOL32o— Mughees Ali (@mugheesali81) November 12, 2022
مغیث علی کے سوال پر جرمن صحافی نے واضح کیا کہ ٹوئٹر پر کمنٹس سیکشن بند کرنے کا عمران خان کے انٹرویو سے کوئی تعلق نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ ٹوئٹر ایسے ہی استعمال کرتی ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ میں صرف لوگوں کو یہ بتا رہی تھیں کہ وہ کیوں میرے ٹویٹس پر کمنٹ نہیں کر سکتے۔ کوئی بھی میڈیا گروپ اس سے متعلق جو کہہ رہا ہے وہ غلط ہے۔
Hi. I am the journalist. Limiting replies had nothing to do with my interview with Imran Khan. This is how I always use Twitter, and I was simply explaining why to people confused they couldn’t comment. Any news outlets saying otherwise are wrong.
— Melissa Chan (@melissakchan) November 12, 2022
جرمن صحافی کے مغیث علی کو ٹوئٹ کے بعد روزنامہ جنگ نےاپنی ویب سائٹ پر”قتل کی دھمکیاں ” دینے کی خبر کو تبدیل کرتے ہوئے نیا رخ (اینگل) دے دیا اور خبر کی شہ سرخی میں “جرمن اینکر کو سوشل میڈیا پر تنقید کا سامنا” کے الفاظ دیے۔
جب کہ نیو نیوز اور ایکسپریس نیوز کی ویب سائٹس نے اس فیکٹ چیک کے فائل ہونے تک اپنی خبر میں نہ کوئی تبدیلی کی ہے اور نہ ہی اینگل کو بدلہ ہے۔
ڈی ڈبلیو(DW) سے منسوب صحافی بینش جاوید نے بھی روزنامہ جنگ کی غلط خبر کی ٹوئٹر پر مذمت کی ہے جسے ملیسا چان نے ری ٹوئٹ بھی کیا ہے۔
.@jangnews this is highly irresponsible journalism. In her tweet @melissakchan clearly mentions “I never switch on replies for any posts because I get rape threats and death threats.” Don’t misquote her and use journalism for political propaganda. https://t.co/v9qOIyhPPl
— Beenish Javed (@beenishjaved) November 12, 2022
واضح رہے کہ جرمن صحافی کی جانب سے ٹویٹ کی گئی تھی کہ وہ کسی بھی پوسٹ پر کمنٹس سیکشن کو آن نہیں کریں گی کیونکہ انہیں قتل اور زیادتی کی دھکیاں دی جاتی ہیں جس کے بعد ان کی اس ٹویٹ کو عمران خان کہ انٹرویو سے منسلک کر کے غط خبر چلائی گئی تھی۔
نتیجہ
ملیسا چین نے اپنی ٹوئٹ میں واضح کیا کہ انہیں عمران خان کے انٹرویو سے پہلے ہی ٹوئٹر پر اپنے کمنٹ سیکشن بند کئے ہوئے تھے کیونکہ انہیں کافی عرصہ پہلے کچھ اور انٹرویوز پر قتل اور زیادتی کی دھمکیاں مل چکی ہیں۔
مغیث علی کی ٹوئٹر پر ملیسا چین سے گفتگو کے بعد یہ واضح ہوگیا کہ عمران خان کے انٹرویر کے بعد غیر ملکی خاتون صحافی کو دھمکیاں دینے جانے کی خبر بے بنیاد تھی جس کی تردید خود جرمن صحافی میلیسا چان نے کی۔