کاریں عام شہری کی پہنچ سے دور، قیمتوں میں بےتحاشہ اضافہ کیوں ؟


کاروں کو ہر گھر کی ضرورت سمجھا جاتا ہے اور لوگ اپنی ضرورت اور حیثیت کے مطابق کاروں کا چناؤ کرتے ہیں لیکن اب کار کی خریداری بھی لوگوں کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔

ملک میں تیزی سے بڑھتی مہنگائی اور کاروں کی قیمتوں میں بےتحاشہ اضافے کے باعث کاروں کی خریداری میں تیزی سے کمی آئی ہے اور ایک رپورٹ کے مطابق رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ کے دوران گزشتہ سال کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 47 فیصد کاروں کی خریداری میں کمی واقع ہوئی ہے۔

رواں مالی سال کے پہلے 4 ماہ میں 39 ہزار 7 سو کاریں فروخت ہوئی جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں 74 ہزار 652 تھی۔

کاروں کی خریداری میں کمی کی ایک وجہ گاڑیوں کے پرزوں میں درآمدات میں مشکلات بھی بتائی جا رہی ہیں تاہم حکومت نے اب درآمدات پر عائد پابندیوں میں نرمی کر دی ہے جس کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں کچھ بہتری آئی ہے تاہم اکتوبر 2021 کے مقابلے میں گزشتہ ماہ کاروں کی فروخت میں 36 فیصد کمی رہی ہے۔

پاکستان آٹو مینو فیکچرز ایسوسی ایشن (پی اے ایم اے) کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ اکتوبر میں مجموعی طور پر 13 ہزار 369 کاریں فروخت ہوئیں جبکہ اس کے مقابلے میں ستمبر میں 11 ہزار46 کاریں فروخت ہوئی تھیں یعنی ماہ بہ ماہ اکتوبر میں 21 فیصد زیادہ کاریں فروخت ہوئیں۔

پی اے ایم اے کے مطابق گزشتہ ماہ اکتوبر میں چھوٹی اور نسبتاً کم قیمت کاروں کی فروخت میں اضافہ ہوا ہے جبکہ اس کے مقابلے میں مہنگی کاروں کی فروخت میں کمی ہوئی ہے۔

واضح رہے کہ 1800 سی سی سے اوپر کی گاڑیوں پر ریگولیٹری ڈیوٹی 70 فیصد تھی جسے حکومت نے 100 فیصد کر دیا اور اس اضافی 30 فیصد کا بڑی گاڑیوں کی خریداروں پر زیادہ اثر بھی نہیں پڑتا تاہم 660 سی سی سے 1500 سی سی گاڑیوں پر پہلے ریگولیٹری ڈیوٹی صفر تھی تاہم اگست میں اسے 100 فیصد کر دیا گیا۔

اسی طرح اضافی کسٹم ڈیوٹی کی شرح کو 7 سے 35 فیصد کر دیا گیا۔ کم طاقت کے انجن کی حامل گاڑیوں پر ٹیکسوں کی بلند شرح نے ان کی قیمت کو اتنا زیادہ بڑھا دیا ہے کہ اب وہ متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو چکی ہیں۔

ڈالر کی قدر میں اضافے سے اور 250 فیصد تک ٹیکس کی ادائیگی کے بعد 660 سی سی کار کی درآمدی قیمت 30 لاکھ تک چلی جاتی ہے اور اگر 5 سال پرانی گاڑی کی درآمد کی اجازت ہو تو ٹیکسوں کی اس شرح کے ساتھ اس کی قیمت 22 لاکھ تک ہو سکتی ہے۔

پاکستان میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی گاڑیوں میں سوزوکی کمپنی کی مہران اور آلٹو سرفہرست ہیں۔ جو کم قیمت کی وجہ سے ہر طبقے کی پہنچ میں تھیں تاہم اب یہ کاریں بھی متوسط طبقے کی پہنچ سے باہر ہو گئی ہیں۔

سال 2019 میں کاروں کی قیمتیں اور آج کاروں کی قیمتیں میں بہت زیادہ فرق ہے۔

جنوری 2019 میں ہونڈا سوک کی کم سے کم قیمت 28 لاکھ 9 ہزار جبکہ ہونڈا سٹی کی قیمت 18 لاکھ 54 ہزار تھی لیکن اب ہونڈا سوک کی قیمت 63 لاکھ 49 ہزار اور ہونڈا سٹی کی قیمت 38 لاکھ 99 ہزار ہو چکی ہے۔

اسی طرح جنوری 2019 میں ٹویوٹا ایکس ایل آئی کی قیمت 20 لاکھ 44 ہزار روپے، ٹویوٹا جی ایل آئی کی قیمت 22 لاکھ 99 ہزار روپے، ٹویوٹا آلٹس کی قیمت 25 لاکھ 74 ہزار روپے، ٹویوٹا فورچیونر 63 لاکھ 99 ہزار تھی لیکن اب ٹویوٹا ایکس ایل آئی کی قیمت تقریبا 45 لاکھ روپے، ٹویوٹا جی ایل آئی 35 لاکھ 39 ہزار روپے، ٹویوٹا آلٹس 45 لاکھ 69 ہزار روپے اور ٹویوٹا فورچیونر ایک کروڑ 15 لاکھ 79 ہزار سے زیادہ ہو چکی ہے۔

سوزوکی مہران کی 3 سال قبل قیمت 7 لاکھ 89 ہزار روپے، ویگن آر 12 لاکھ 24 ہزار روپے، کلٹس 14 لاکھ 10 ہزار روپے تھی لیکن اب سوزوکی مہران گاڑی کا نیا ماڈل آنا بند ہو گیا جبکہ اس کا متبادل آلٹو 19 لاکھ 50 ہزار روپے، سوزوکی ویگن آر کی کم سے کم قیمت 24 لاکھ 21 ہزار روپے اور سوزوکی کلٹس کی قیمت 27 لاکھ 54 ہزار ہے، اب سوزوکی کلٹس کار بھی بند ہونے کی اطلاعات گردش کر رہی ہیں۔

سال 2022 کے اختتام پر اب سوزوکی آلٹو کے سوا کوئی گاڑی 20 لاکھ روپے سے کم کی نہیں ہے۔


متعلقہ خبریں