چاکلیٹی ہیرو،دلوں پر برسوں راج کرنے والا ٹوٹے دل کے ساتھ رخصت


وحید مراد نے فلم انڈسٹری پر ہی نہیں، پرستاروں کے دلوں پر بھی برسوں راج کیا لیکن پھر ایک ایسا وقت آیا جب یہی فلم انڈسٹری ان کے لیے اجنبی بن گئی، وحید مراد کو دنیا سے رخصت ہوئے 42 برس بیت گئے۔ یہ یونیورسٹی کے پڑھے لکھے نوجوان کی اچانک فلموں میں آمد، برسوں تک سب کو اپنا دیوانہ بنانے اور المناک حالات میں دنیا چھوڑ جانے کی کہانی ہے۔

پاکستانی فلم انڈسٹری میں اعجاز، حبیب، درپن اور محمد علی جیسے اسٹار گزرے، جنہوں نے اپنی اداکاری اور شخصیت سے متاثر کیا لیکن اس انڈسٹری کو اگر کوئی پہلا سپر اسٹار ملا تو وہ وحید مراد تھے۔ بڑی بڑی سحر طاری کرنے والی آنکھیں، دلکش آواز، گانوں کی عکس بندی کے دوران چلبلا انداز ، ایک دنیا ان کی شخصیت اور اداکاری کی دیوانی ہوئی۔

وحید مراد 1938 کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے، وہ برصغیر کے معروف فلم تقسیم کار نثار مراد اور شیریں مراد کی اکلوتی اولاد تھے، انہوں نے ایس ایم آرٹس کالج سے گریجویشن کرنے کے بعد کراچی یونیورسٹی سے انگریزی ادب میں ماسٹرز کیا اور پھر پہلی فلم ۔۔۔ انسان بدلتا ہے ۔۔۔ سے فلمی دنیا میں قدم رکھا جبکہ فلم ‘اولاد’ سے اداکاری کا سفر شروع کیا۔

1966 میں وحید مراد کی فلم ۔۔ ارمان ۔۔ نے مسلسل 75 ہفتوں تک سینیما گھروں کی زینیت بن کر باکس آفس کے گزشتہ تمام ریکارڈ ٹوڑ ڈالے، رومانوی کہانی نے جہاں لوگوں کے دل چھوئے وہیں، اس فلم کے گانے ۔۔ کو کو کورینا اور اکیلے نا جانا ۔۔ آج بھی مداحوں میں مقبول ہے۔ اس فلم کی کامیابی نے فلم انڈسٹری کو ایک چاکلیٹی ہیرو دیا۔

1960سے 1983 تک وحید مراد نے اپنے 23 سالہ فلمی کیرئیر میں عندلیب، جب جب پھول کھلے، سالگرہ، انجمن، جہاں تم وہاں ہم پھول میرے گلشن کا، دیور بھابھی سمیت 124 فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھائے۔ ان کی دو فلمیں ہیرو اور زلزلہ ان کی وفات کے بعد ریلیز ہوئیں تھیں۔
وحید مراد نے اپنی زندگی میں بطور پروڈیوسر اور اداکار 32 ایواڈرز حاصل کیے جبکہ وفات کے بعد 2010 میں انہیں ‘ستارہ امتیاز’ سے بھی نوازا گیا۔

بی بی سی اردو کی رپورٹ کے مطابق دنیا کو وحید مراد بطور ہیرو کا تحفہ زیبا بیگم نے دیا، انہوں نے فلم کی شوٹنگ کے دوران وحید مراد سے ہیرو بننے کا مشورہ دیتے ہوئے کہا کہ تم میں کس چیز کی کمی ہے ؟ وحید مراد نے اپنے سانولی رنگت کو آڑ سمجھا لیکن یہی ان کی پہچان بن گئی،اور انہوں نے ایس ایم یوسف کی فلم ’اولاد‘ میں کام کرنا قبول کر لیا۔

جب کیمرے کا پیچھے کھڑا وحید مراد کیمرے کے سامنے آیا تو صرف کیمرے نے ہی نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں نے کھلے دل سے اپنے نئے ہیرو کو دل میں بسا لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ لوگوں کے دلوں کی دھڑکن بھی بن گئے۔

وحید مراد کے فلمی دنیا میں آنے کے بعد فلم ’چکوری‘ کے ذریعے ندیم متعارف ہوئے اور یوں پاکستانی فلم سکرین پر سپر سٹار کی تکون بن گئی جس میں محمد علی، وحید مراد اور ندیم شامل تھے۔ اس تکون نے پاکستان فلم انڈسٹری پر راج کیا لیکن اس تکون میں بھی وحید مراد کا جادو ، اداکاری اور انداز سب سے جدا اور خوبصورت تھا۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستان کا ہر لڑکا اپنے بال ماتھے پر بکھیرے وحید مراد جیسا بننے کا خواہاں تھا اور ہر لڑکی اپنے خوابوں کے شہزادے میں وحید مراد ڈھونڈتی تھی، لیکن لاکھوں دلوں پر راج کرنے والے کا دل کراچی کے صنعت کار ابراہیم میکر کی بیٹی سلمٰی میکر پر آیا اور انہیں سے وحید مراد نے شادی کا وعدہ بھی نبھایا۔

جہاں شائقین وحید مراد کو اپنی پسندیدہ ہیروئنوں کے ساتھ پردہ سکرین پر دیکھنا چاہتے تھے، وہیں ان کے شوہر وحید مراد کی پرکشش شخصیت سے حسد کرنے لگے۔ فلمی دنیا میں جس جوڑی کو سب سے زیادہ پسند کیا گیا وہ وحید مراد اور زیبا کی تھی، لیکن محمد علی سے شادی کے بعد زیبا نے وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا اور یوں یہ خوبصورت جوڑی ٹوٹ گئی۔

اسی طرح کئی ہیروئنوں نے شادی کے بعد وحید مراد کے ساتھ کام کرنے سے انکار کر دیا، جس میں زیبا کے ساتھ ساتھ ، شبنم اور نشو شامل ہیں۔وحید مراد نے فلمی دنیا میں دیبا، رانی، عالیہ، آسیہ اور شمیم آرا کے ساتھ اپنی الگ جوڑیاں بنائیں اور کامیاب فلمیں دیں۔

جہاں زندگی میں عروج ہے وہیں زوال بھی ہے، لیکن اس حقیقت کو ماننا ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ فلم انڈسٹری آگے بڑھی اور بلیک اینڈ وائٹ سے رنگین فلموں کا دور آیا تو وحید مراد کی قسمت کا ستارہ بھی جیسے ڈوبنے لگا۔ 80 کی دہائی کے آغاز میں وحید مراد کی جگہ اداکار ندیم نے اپنا جادو جگانا شروع کر دیا جبکہ وحید مراد کی ایک کے بعد ایک فلمیں ناکام ہونے لگیں۔

1983میں تیز ڈرائیونگ کے دوران وحید مراد کی گاڑی کو حادثہ پیش آیا جس میں ان کی جان تو بچ گئی لیکن چہرے پر زخم کا گہرا نشان پڑ گیا۔ جس کے بعد فلمی دنیا جیسے ان سے مکمل طور پر روٹھ گئی، نہ دوست کام آئے نہ خاندان، اور اس نشان زدہ چہرے کے ساتھ وحید مراد کو ہر کسی نے اپنانے سے انکار کر دیا۔

وحید مراد نے چہرے کی پلاسٹک سرجری کا فیصلہ کیا لیکن اس سے پہلے ہی 23 نومبر 1983 کو یہ ستارہ دنیا چھوڑ گیا۔

بی بی سی نے لکھا ہے کہ اپنی موت سے پہلے آخری شو میں وحید مراد نے، انور مقصود سے کہا کہ ’گر میں نہ رہوں، مجھے کچھ ہو جائے یا میں دنیا سے اٹھ جاؤں تو مجھ پر فلمبند یہ گانا میری موت کے بعد کی زندگی کا عکاس ہو گا۔

بھولی ہوئی ہوں داستاں گزرا ہوا خیال ہوں
جس کو نہ تم سمجھ سکے میں ایسا اک سوال ہوں


متعلقہ خبریں