ہم نیٹ ورک کا دس کا دم، دس ٹیموں کا جم کر مقابلہ


ہم نیٹ ورک کا دس کا دم یعنی دس ٹیموں کا جم کر مقابلہ ۔۔ اسلام آباد میں نومبر کی سردی میں مارگلہ کی پہاڑیوں کے دامن میں دس ٹیموں کا ٹکر کا ٹاکرا ہوا۔ کسی کا نعرہ تھا ’’ہم کسی سے کم نہیں‘‘ تو کسی کے لبوں پر ’’ہم سا ہو تو سامنے آئے‘‘ لیکن اس کھیل کے آخر میں ہم سب پکار رہے تھے ’’ہم ایک ہیں ‘‘ْ

اس انٹر ڈیپارٹمنل کرکٹ ٹورنامنٹ کا انعقاد مشکل ہی نہیں نا ممکن لگ رہا تھا لیکن ناصر جمال اور ساتھیوں کی انتھک محنت نے نا ممکن کو ممکن بنادیا۔

ٹورنامنٹ کے ڈراز اور کِٹ کی تقسیم کے فرائض سی ای او ہم نیٹ ورک درید قریشی نے سر انجام دیے اور اس موقع پر انھوں نے کرکٹ ایکسپرٹ کے طور پر جیت کیلئے فیورٹ ٹیم کا نام بھی بتایا جس کا نتیجہ اس تحریر کے اینڈ میں آپ بھی جان جائیں گے.

ہم مینجمنٹ اپنے اسٹاف کی صحت پر ہمیشہ زور دیتی ہے اس ایونٹ میں چار چاند اس وقت لگے جب ہم نیٹ ورک کی صدر سلطانہ آپا خود دشوار راستے سے گزر کر میدان میں پہنچیں انھوں نے اپنی کِٹ وصول کی، تمام اسٹاف کا حوصلہ بڑھایا۔ اس موقع پر اختر وقار عظیم صاحب بھی پریزیڈنٹ کے ساتھ موجود تھے.

ٹورنامنٹ میں ابتدائی طور پر 12 ٹیمیں تھیں لیکن بعد میں چار گروپس میں 10 ٹیمز میدان میں رہ گئی۔

ان ٹیموں میں سب کی فیورٹ ٹیم کری ایٹواور مانیٹرنگ کی ڈریگن جو آگے پیچھے ،دائیں بائیں چاروں طرف سے مخالفین پر آگ برسانے کیلئے تیار تھی، ہم نیوز ٹیکنیکل کے اسٹرائیکر چھکے چھڑانے کیلئے اتنے ہی بیتاب تھے جتنا کہ اپنا پنجہ گاڑ نے کیلئے ایڈمن، سیلز، مارکیٹنگ، ایچ آر اور فائنانس کی لائنز۔ ٹرافی کیلئے اونچی اڑان والی اینٹر ٹینمنٹ کی ایگلز،اپنا تخت بچانے کی کوشش میں مصروف نیوز روم، این ایل ای ، میک اپ اور ڈیجیٹل کی رائلز، اپنا تاج اپنا راج سنبھالنے والےاینٹرٹینمنٹ ٹیکنکل کے کنگز، اتحاد اور اتفاق کی مثال پروگرامنگ کی یونائیٹڈ ، سب کوللکارنے والے پشتو چیلنجرز، سرحدوں کی لکیروں سے باہر بجلیاں گرانے والے انٹرنیشنل کے تھنڈرزاورسب کی سوچ سے آگے ہم نیوز سی این آر ،پی سی آراور بیورو کی وارئیرز۔

اس ایونٹ کی سب سے بڑی کامیابی ’’پہچان ‘‘ تھی۔ ہم میں کتنے سارے تھے جو ایک دوسرے کو شکل سے نہیں جانتے تھے اب بعد میں نام کے ساتھ پکارتے ہیں.

ایک ہی میدان میں کھڑے نہ کوئی محمود تھا نہ ہی کوئی ایاز، اپنی اپنی جیت کیلئے سب کا ایک جارحانہ انداز، سب ایک سے بڑھ کر ایک کھلاڑی اور ان سے بھی بڑھ کر انٹرٹینمنٹ دینے والے کچھ اناڑی ، یعنی میچ میں کیچ چھٹنے سے نہیں کیچ پکڑنے سے ڈر لگ رہا تھا۔
یہ اپنی تاریخ کا پہلا کرکٹ ٹورنامنٹ ہوگا جس میں دو دن میں کم سے کم 2 سو گول اسکور ہوئے یعنی فیلڈرز نے مس فیلڈنگ کر کے دوسری ٹیم کے رن بڑھوائے.

ایف نائن پارک کی خوبصورتی کو ہر پل سمیٹنے والے ڈرون کیمرے نے سب کے ایک ایک لمحے پر نظر رکھی۔ ریڈ زون سے کہیں دور اس ڈرون نے آزادی سے پرواز بھری جب چاہے تب بھری.

فیملی اینٹر ٹینمنٹ کیلئے اس میدان میں چھوٹے بچوں کیلئے جمپنگ کاسل بھی لگایا گیا تھا جسے نیوز روم کے تین بڑوں نے خوب آزمایا اب اس گدے کو جاپان کی مشہور ریسلنگ میں بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔

ہم کے اس ٹورنامنٹ کے مہنگے ترین بالر نیوز کے ریحان ثابت ہوئے لیکن انھوں نے ایچ آر کے عارف سے کچھ سستی بالنگ کی، اسلام احمد خان نے کفایت شعاری میں ایک بار پھر سب کو پیچھے چھوڑ دیا انھوں نے صرف دو منٹ میدان میں گزارے، بال بھی نہیں کھیلی اور نان اسٹرائیکر اینڈ سے دوسرا رن لیتے ہوئے رن آوٹ بھی ہوگئے اتفاقا یہ لمحہ بھی ڈرون مِس نہیں کرسکا، ٹیکنکل کے سمیربٹ نے اپنے چھکوں سے زیادہ اعتراض کے ریکارڈ بنائے اسی لیے وہ بہترین بیٹر کا اعزاز اپنے ساتھی اوپنر عمر فاروق سے ہار گئے، بہترین کیچ کا اعزاز توصیف احمد کو ملا جنھوں ایک انچ ہلے بغیر گیند کو دبوچ لیا۔ بہترین بالر کا اعزاز اسٹرائیکرز کے شاکر اور جہانزیب کے درمیان رہا۔

راو عادل صاحب بہترین جنگ جو قرار پائے انھیں سب کچھ منظور تھا سوائے میدان میں ایک ہار کہ۔ منان صاحب نے زخمی ہونے کے باوجود رنر نہ لیکر اپنے سے کہیں زیادہ کم عمر جوانوں کو ہمت کا پیغام دیا۔ طارق شیخ کی کپتانی میں کنگ نے اپنا کراچی کا تاج اسلام آباد کے سیمی فائنل میں کھویا ،عاطف خان کی زیر کمان پشتو چیلنجرز سب سے مختصر میچ میں ہمت ہار گئے ۔ اینٹرٹینمنٹ ایگلز کی جس طرح ٹرافی پر نظر تھی اسی طرح ان کی سربراہ میمونہ کی اپنے کپتان عمر سمیت اپنی ٹیم پر، وہ میدان میں سب کی حوصلہ افزائی کرنے آئیں۔ یونائیٹڈ کے کپتان ثمر ٹیپ بال میں ہارڈ بال جیسی کارکردگی نہ دکھاسکے لیکن سیمی فائنل میں ٹورنامنٹ جیتنے والی ٹیم سے ہار گئے۔

اس ایونٹ کا ایک اورتڑکا اس کی کمنٹری تھی جس میں ارتضی اور سہیل اختر نے رنگ بھر دیے، مہک نے آزادی اظہار کا فائدہ اٹھایا اور وقاص نے آخر میں اینٹری دے کر میدان لوٹ لیا وہ جب اپنے خاص انداز میں کھیلنے والوں کو داد دیتے اس وقت سب کا جواب آتا ’’واؤ …

ہم نیٹ ورک اسلام آباد کا یہ میگا ایونٹ اسٹرائیکرز کی جیت پر ختم ہوا یہ ٹرافی ہمایوں خان نے ٹیم کے ساتھ وصول کی ، جی ہاں یہ وہی ٹیم تھی جس کو فیورٹ کسی اور نے نہیں درید صاحب نے قرار دیا تھا۔ فائنل میں اسٹرائیکرز کے سامنے تھے واریئرز جو اپنی فتح کا جشن سیمی فائنل جیت کر ہی مناچکے تھے ویسے بھی فائنل سے پہلے ہی طے ہوچکا تھا کہ دونوں سنہری چمکتی ٹرافیاں تھرڈ فلور کی ہی شان بڑھائیں گیں۔

ہم کا گلدستہ چاروں صوبوں ،آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے پھولوں سے سجا تھا۔ ٹیم کے زیادہ تر کپتان سندھ اور پھر خیبر پختونخوا اور کشمیر کے تھے لیکن زیادہ کھلاڑی پنجاب کے تگڑے نوجوان انہی میں سے زیادہ تر نے مین آف دی میچ کا اعزاز اپنے نام کیا ۔

یہ کھیل بھی کام کی طرح ہم سب کے نام رہا سب کے لبوں پر ایک ہی پیغام رہا ’’ ہم ہیں پاکستانی ہم تو جیتیں گے ہاں جیتیں گے۔


متعلقہ خبریں