ہجرت بچوں کی ذہنی نشو نما کیلئے نقصان دہ ہو سکتی ہے


عام طور پر مختلف معاشی اور معاشرتی عوامل کے باعث خاندانوں کی صورت میں ایک ملک سے دوسرے ملک ہجرت کی جاتی ہے، والدین کے ساتھ اس ہجرت میں بچے بھی شامل ہوتے ہیں لیکن ان بچوں پر اس ہجرت کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں۔

سرکاری اداروں کے مطابق دو ہزار بائیس میں تقریبا آٹھ لاکھ پاکستانی شہریوں نے مختلف ممالک میں ہجرت کی۔ پاکستانیوں کی بڑی تعداد ایسی تھی جو بہترین معیار زندگی اور سہولیات کے لئے خلیجی ممالک میں منتقل ہوئے۔ سب سے ذیادہ تعداد سعودی عرب منتقل ہوئی۔ متعدد افراد نے اپنے اہلخانہ کے ہمراہ ہجرت کی ، ہجرت کے اس عمل میں بچوں کو بھی ایک جگہ سے دوسری جگہ والدین کے ہمراہ جانا پڑتا ہے۔

دوسرے ممالک میں ہجرت کے والدین کے فیصلے اکثر یکطرفہ ہوتے ہیں۔ یا تو بچوں کو فیصلہ سازی کے عمل میں شامل نہیں کیا جاتا یا انہیں آگاہ کر کے خانہ پری کر لی جاتی ہے ، والدین کے اس یکطرفہ فیصلوں کے سب سے ذیادہ متاثرہ یہی بچے ہوتے ہیں جبکہ کچھ بچے ہجرت پر خوش ہوتے ہیں۔

والدین کے ہمراہ پاکستان شفٹ ہونے والے بچوں کو آغاز میں اجنبیت کا احساس تنگ کرتا ہے پھر رفتہ رفتہ کھلنے ملنے سے انکی نفسیاتی الجھنیں کم ہو جاتی ہیں۔ رومیصہ فیصل بھی والدین کے ہمراہ پاکستان شفٹ ہوئیں۔ انکا کہنا ہے کہ یہاں شروع شروع میں مشکلات پیش آئیں پھر سکول میں آہستہ آہستہ جب دوست بنتے گئے تو یہ مشکلیں بھی کم ہو گئیں۔

ہدیٰ خرم کے مطابق جب اس نے والدین کے ساتھ پاکستان لینڈ کیا تو اسکے ذہن میں یہی خیال تھا کہ یہاں کیسے سیٹل ہونگے، لیکن دو سے تین ہفتوں میں وہ یہاں سیٹل ہو گئی۔ احمد خرم بھی ایسے ہی بچوں میں سے ایک ہے جنہیں والدین کے ہمراہ پاکستان منتقل ہونا پڑا۔ خرم کے مطابق شروع کے دو تین ماہ مشکل تھے لیکن کچھ وقت بعد معمولات سیٹ ہو گئے۔

یہ بھی پڑھیں: بش، اوباما اور بل کلنٹن افغان تارکین وطن کی مددکرنے پر متحد

ہجرت کے باعث بچوں کو اپنے معمولات ترک کرنا پڑتے ہیں، روزمرہ سکول اور کلاسز پیچھے رہ جاتی ہیں، پرانے دوستوں کو خیرباد کہنا پڑتا ہے۔ نئی جگہ نئی زبان اور نئے لوگوں سے گفتگو میں انہیں دقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ پاکستانی نژاد امریکی بچے احمد علی کہتے ہیں کہ دو ہزار گیارہ میں جب وہ چھ سال کے تھے تو والدین کے ہمراہ امریکا منتقل ہو گئے تھے۔ شروع شروع میں مشکل لگتا تھا لیکن آہستہ آہستہ وہ یہاں کے ماحول کے عادی ہو گئے۔ محمد بلال کہتے ہیں کہ امریکا آنے کے کچھ عرصہ تک تو وہ نروس رہے۔ یہاں پاکستان سے مختلف لوگ تھے، مختلف کلچر تھا، یہاں کوئی اردو نہیں بولتا تھا، سکول میں بھی اسے گفتگو میں دقت پیش آتی تھی۔

والدین کا ماننا ہے کہ اس ہجرت کا اثر بچوں پر کافی دیر تک رہتا ہے اور کچھ تو اس سے خوش ہوتے ہیں جبکہ کچھ کو نئی جگہ اور عوامل کے باعث سیٹل ہونے میں مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ والدین کے مطابق چھوٹی عمر کے بچے جلد ہی نئے ماحول سے مانوس ہو جاتے ہیں جبکہ تھوڑے بڑے بچوں کو کلچر اور سماجی طور پر بیرئیرز کا سامنا ہوتا ہے۔ خرم شکیلکہتے ہیں کہ ہجرت کا سب سے مشکل کام ایک تو بچوں کو سمجھا ک قائل کرنا ہوتا ہے دوسرا سارے کا سارا سامان ساتھ لانا بھی ایک مشکل کام ہوتا ہے۔ وارث صدیقی کہتے ہیں کہ وہ شروع سے چاہتے تھے کہ انکے بچوں کو بہتر معیار تعلیم اور ماحول میسر آئے۔ یہی وجہ تھی کہ وہ پاکستان چھوڑ کر امریکا منتقل ہوئے۔ اپنا گھر چھوڑنا مشکل لگتا ہے ، مگر مجبورا کرنا پڑتا ہے۔

چائلڈ سائیکولوجسٹ کے مطابق والدین کے ساتھ ہجرت کرتے والے بچوں کی نفسیات پر مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں جبکہ نئی جگہ سیٹل ہونے میں بچوں کو سب سے بڑا مسئلہ گفتگو کے وقت درپیش ہوتا ہے۔ جہاں سکولوں میں اور نئے لوگوں سے بات کرنے میں مقامی زبان سے نا آشنائی بڑا مسئلہ ہے۔ ڈاکٹر قراۃ العین کہتی ہیں کہ والدین کے ساتھ ہونے کی وجہ سے بچے کمفرٹ محسوس کرتے ہیں ،،، انہیں صرف نئی زبان اور گفتگو میں مسائل پیش آتے ہیں۔

ماہرین تجویز کرتے ہیں کہ نئی جگہ ہجرت کرنے والے بچوں کی کونسلنگ والدین کی بھاری ذمہ داری ہے۔ اساتذہ بھی بچوں کے ذہن میں موجود الجھنیں دور کرنے میں بہترین کردار ادا کر سکتے ہیں،  ضروری ہے کہ  دلچسپی کے مطابق بچوں کو دوستانہ ماحول فراہم کیا جائے۔


متعلقہ خبریں