پاکستان نایاب بیماریوں کی تشخیص، علاج کے اداروں سے محروم


اگر ہر ایک ملین آبادی میں سے 20 افراد کسی بیماری میں مبتلا ہوں تو اس بیماری کو ایک نایاب بیماری سمجھا جاتا ہے۔

دنیا بھر میں 7000 سے زیادہ بیماریوں کو نایاب بیماریوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ان نایاب بیماریوں کی تشخیص کے لیے کوئی ادارہ موجود نہیں اور نہ ہی علاج کے لیے ڈیٹا اور تحقیق ہو رہی ہے۔

دنیا کی 8 ارب کی آبادی میں 7000 نایاب بیماریوں میں سے کئی ایسی بیماریاں ہیں جو ابھی تک لاعلاج ہیں۔ پاکستان کی 230 ملین کی آبادی میں ان نایاب بیماریوں کی تشخیص کے لیے کوئی مناسب طریقہ کار موجود نہیں ہے۔ اب تک جن نایاب امراض کی تشخیص ہوئی ہے وہ حادثاتی طور پر ہوئی ہے۔ پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن اس اہم ترین مسئلے کا ذمہ دار صحت کے نظام کو قرار دیتی ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی کا کہنا ہے کہ “اس کی ذمہ دار ریاست ہے، صحت ہر فرد کا استحقاق ہے۔ طبی ماہرین کو یہ سمجھنا چاہیے کہ اگر نایاب امراض کی تشخیص کے حل کے حوالے سے کوئی کوشش ہو رہی ہے تو اس پر کام کرنا ضروری ہے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے مطابق نایاب بیماریوں، ان کی تشخیص اور علاج پر 2012 سے کام کیا جا رہا ہے، پاکستان بھی عالمی سطح پر اس ریسرچ گروپ کا رکن ہے لیکن بدقسمتی سے یہاں کوئی تحقیقی اور عملی کام نہیں ہو رہا۔

پاکستان میں نایاب اور پیچیدہ بیماریاں دن بدن بچوں اور نوجوانوں کو متاثر کر رہی ہیں۔

ڈاکٹروں کے مطابق پاکستان میں معمولی بیماریوں کے لیے طبی سہولیات دستیاب نہیں ہیں۔ نایاب امراض کے لیے جدید ٹیکنالوجی اور مستند طبی ماہرین کی کمی کو پورا کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے۔

خبردار! ہیڈ فونز کا مسلسل استعمال ، بڑی بیماری کا استقبال

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن لاہور کے جنرل سیکرٹری پروفیسر ڈاکٹر شاہد ملک کا کہنا ہے کہ ’پاکستان میں اب تک جن نایاب امراض کی تشخیص ہوئی ہے ان میں سے اکثر حادثاتی طور پر ممکن ہوئی ہیں۔ اگر ان بیماریوں کی تشخیص ہو جائے تو ماہرین ان کے علاج کا طریقہ سیکھ لیں گے۔ اگر آپ اسے سیکھیں گے تو آپ نایاب بیماریوں کا علاج ممن بنا سکیں گے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں تھیلیسیمیا جیسی وبا کو عوامی آگاہی اور علاج کے ذریعے کنٹرول کیا گیا ہے۔

اگر اسی طرح صحت کی جامع پالیسی بنائی جائے تو نہ صرف ان نایاب بیماریوں کی تشخیص ممکن ہو سکے گی بلکہ تحقیق کے ذریعے پاکستانی ڈاکٹرز بھی علاج میں اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔

پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن پنجاب کے صدر پروفیسر ڈاکٹر اظہار چوہدری کا کہنا ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں صحت کی ایک جامع پالیسی موجود ہے۔ ان ممالک میں صحت کی مستقبل کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس بات پر زور دیا جاتا ہے کہ اگلے دس یا پندرہ سالوں میں کیا کرنا ہے۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ قومیں کہاں کھڑی ہیں اور صحت کے معاملے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ پچھلے پندرہ بیس سالوں میں یہ نہیں دیکھا گیا کہ ہمیں اپنی آبادی کے لیے کیا اقدامات کر رہے ہیں۔

طبی ماہرین کے مطابق گزشتہ چند برسوں کے دوران عالمی اداروں کی مدد سے جمع کیے گئے اعداد و شمار سے نتائج مرتب کرکے پاکستان میں غذائی قلت کے مسئلے کو حل کرنے کی کوششیں کی گئیں۔ بین الاقوامی اداروں کی مدد سے ان نایاب بیماریوں کے معاملے میں بھی اہم پیش رفت حاصل کی جا سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں