پاکستان کو قرضہ نہیں ، عوام کیلئے روزگار چاہیے، چیف جسٹس

supreme court

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اربوں روپے قرض لینے سے پوری قوم مقروض ہوچکی ہے پاکستان کو قرضہ نہیں چاہیے، عوام کیلئے روزگار چاہیے۔

سپریم کورٹ میں اولڈ ریلوے گالف کلب عملدرآمد سےمتعلق کیس کی سماعت چیف جسٹس پاکستان کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کی، سماعت کی دوران  سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ عدالت کے حکم امتناع کی وجہ سے ریلوے کی زمین لیز پر نہیں دے سکتے، زمین لیز پر دیکر ریونیو حاصل کرنے کی اجازت دی جائے۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے ریلوے کی کارکردگی پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پوری دنیا میں ریلوے کا شعبہ حکومت کو ریونیو دیتا ہے لیکن پاکستان میں اربوں روپے قرض لے لیا جاتا ہے، پاکستان میں قرضہ لینا ایک حساس معاملہ بن چکا ہے، اربوں روپے قرض لینے سے پوری قوم مقروض ہوچکی ہے، پاکستان کو قرضہ نہیں چاہیے، عوام کیلئے روزگار چاہیے، ریلوے حکام ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں جامع پلان پیش کریں، ایم ایل ون پروجیکٹ اربوں ڈالرز لیکر بھی مکمل نہیں ہوا ہے۔

سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ ایم ایل ون 9.8 ارب ڈالر کا منصوبہ ہے جسکی ایکنک منظوری دے چکا ہے۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ اربوں ڈالر قرض لیکر منصوبے لگانے کی بات ہر کوئی کرتا ہے، ملک میں اربوں ڈالر کا انفراسٹرکچر پہلے سے موجود ہے اس پر کیا ڈلیور کیا ؟ چھٹیوں کے دوران سندھ میں ریل کا سفر کیا ہے، سندھ میں ریلوے لائنوں کے اطراف آج بھی سیلابی پانی کھڑا ہے، بارشیں گرمیوں میں ہوئی تھیں اور پانی اب تک نہیں نکالا جا سکا، ریلوے افسران نے بتایا کہ بلوچستان میں صورتحال سندھ سے بھی ابتر ہے، بین الاقوامی جریدے دی اکانومسٹ نے پاکستان کی سڑکوں پر ضمیمہ چھاپا تھا، عالمی ضمیمے کا عنوان تھا وہ سڑکیں جو کہیں نہیں جاتیں، ملک کو یہ پرتعیش آسائشیں نہیں پرفارمنس اور استعداد کار چاہیے، اربوں ڈالروں کے منصوبے لگانے سے عدالت امپریس نہیں ہوگی۔

ریلوے کی زمینوں کے اطراف تجاوزات کی بھرمار ہے، ریلوے لائن سے 15 فٹ کے فاصلے پر لوگوں کے گھر ہیں، ریلوے اپنی اراضی کی حفاظت نہیں کرے گا تو لوگ اس پر بیٹھ جائیں گے، ریلوے آپریشنز ہی صفر ہوگئے تو ان کمرشل سرگرمیوں کا کیا کرینگے؟ لاہور خانیوال سیکشن پر رکشہ ٹرین کی زد میں آیا 2افراد جا ں بحق ہوئے، حادثہ بے وقوفی اور بدانتظامی کا نتیجہ تھا کوئی دہشتگردی نہیں تھی۔

انہوں نے مزید کہا کہ لوگ سارا دن ریلوے لائنوں پر بیٹھے رہتے ہیں کیونکہ کوئی رکاوٹ نہیں ہے، ریلوے لائنز کو موٹروے کی طرح محفوظ کیوں نہیں بنایا جاتا تاکہ کوئی ان پر نہ آسکے؟

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت میں کہا کہ سپریم کورٹ نے سال 2021 میں ایک تفصیلی فیصلہ دیا ہے، فیصلے میں عدالت نے ریلوے اراضی لیز اور فروخت کرنے پر پابندی لگا دی ہے،  عدالتی فیصلے کی وجہ سے گالف کلب کی لیز کا عمل رک گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ ریلوے کو زمینوں کی فروخت اور لیز کا لائسنس نہیں دے سکتے، ریلوے پورا بزنس پلان بنا کر دے تب ہی جائزہ لینگے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کوئٹہ میں ریلوے کے رہائشی کوارٹر فروخت ہوچکے ہیں، سیکرٹری ریلوے نے کہا کہ جو زمین استعمال نہیں ہو رہی اسے کمرشل کرنا چاہتے ہیں، چیف جسٹس نے سوال کیا کہ ریلوے وفاقی حکومت سے بطور کمرشل ادارہ کام کرنے کی اجازت کیوں نہیں لیتا؟ ریلوے اس وقت مالی بوجھ تلے دبا ہوا ہے، ریلوے میں ملازمین ضرورت سے زیادہ، پنشنز کا بھی بوجھ ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسلمانوں کو بھارتی سپریم کورٹ سے ریلیف مل گیا

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ ریلوے نے کئی قیمتی اراضیاں پانچ سو روپے سالانہ پر سو سال کیلئے لیز کر رکھی ہیں، اولڈ اسلام آباد ایئرپورٹ کے قریب ریلوے زمین پر ہائوسنگ سوسائٹی بن گئی تھی، ریلوے کو زمین کمرشل نہیں آپریشنل مقاصد کیلئے دی گئی ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ سیکرٹری ریلوے بتائیں کس زمین پر کیا کرنا چاہتے ہیں پھر لیز سے متعلق سوچیں گے، عدالت اربوں روپوں کی باتوں سے اب متاثر نہیں ہوتی، ریلوے لائنز کے گرد تجاوزات بڑھ رہی ہیں، ریلوے ٹریک پر رکشہ چڑھنے سے بھی حادثہ پیش آیا تھا، اگر ادارے اپنی زمینوں کا تحفظ نہیں کریں گی تو تجاوزات ہی ہوں گی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے سوال کیا کہ ریلوے سالانہ کتنا منافع کما رہا ہے؟ سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ  پیچھلے سال ریلوے کا سالانہ منافع کا ٹارگٹ 58 ارب روپے تھا، ریلویز نے سال 2022 میں 62 ارب روپے کمائے۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ ریل گاڑی کے انجن سے ایک موٹر خراب ہو جائے تو دوسرے ریل گاڑی کا نکال کر لگا لیتے ہیں، کیا ریلوے کا نظام ایسے چلا رہے ہیں؟

سیکریٹری ریلوے نے کہا کہ پاکستان ریلوے پل صراط پر چل رہی ہے،سیلاب کے دوران پاکستان ریلوے کو628 ارب روپے کا نقصان ہوا ہے، ریلویز نے سیلاب کے بعد خود ریلوے بحال کیں حکومت سے ایک پیسا بھی نہیں لیا، ملک میں سڑکوں کی تعمیر کو زیادہ اہمیت ملی۔

جسٹس اعجازالاحسن نے کہا کہ حکومت پنشنز کی مد میں ریلوے کو 40 ارب روپے دیتی ہے، حکومت پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو بھی اربوں روپے دے رہی ہے، کیا سب کچھ بیچ کر ملک چلانا ہے؟

چیف جسٹس عمر عطابندیال نے کہا کہ اس عدالت میں اربوں روپوں کے منصوبے کی بات نہیں کرنے دی جائے گی، کوئٹہ سے ریل کا راستہ منقطع ہے، چائینیز بھائیوں سے ہی پوچھ لیں کہ سیلاب کا کھڑا پانی کیسے نکالنا ہے، ریلوے کے نظام میں بہتری عام آدمی کی بڑی خدمت ہو گی، یہی ریلوے نظام پڑوس ملک میں چل رہا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں؟ پاکستان میں ریل گاڑی جس بھی اسپیڈ سے چلے منزل پر پہنچا ہی دیتی ہے، ریلوے سسٹم پاکستان کی لائف لائن ہے۔

سپریم کورٹ نے 2 ہفتے میں ریلوے کو منافع بخش بنانے سے متعلق جامع پلان عدالت میں جمع کرانے کا حکم دیتے ہوئے سماعت  23 جنوری سے شروع ہونے والے ہفتے تک ملتوی کر دی۔


متعلقہ خبریں