عمران خان پارلیمنٹ جائیں، مسئلہ حل نہ ہو تو عدالت آئیں، سپریم کورٹ


اسلام آباد: سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان نیب ترامیم کے خلاف پارلیمنٹ جائیں اور پھر مسئلہ حل نہ ہو تو عدالت آئیں۔

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کے خلاف عمران خان کی درخواست پر سماعت ہوئی۔ پی ٹی آئی کا پارلیمنٹ واپس جانے کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیر بحث رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اخبارات میں خبریں چھپی ہیں پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس جا رہی ہے اور اگر پی ٹی آئی پارلیمنٹ واپس آتی ہے تو کیا حکومت ان کے ساتھ مل بیٹھے گی؟ کیا ہم نیب ترامیم کا معاملہ واپس پارلیمنٹ بھیج دیں؟

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی نے مؤقف اختیار کیا کہ بغیر ہدایات لیے عدالت میں کوئی بات نہیں کر سکتا جبکہ پارلیمانی نظام میں تمام طریقہ کار واضح اور طے شدہ ہے۔ پی ٹی آئی چاہے تو پارلیمنٹ جا کر نیب قانون کا ترمیمی بل پیش کر سکتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ قانون سازی اکثریتی رائے کے بجائے اتفاق رائے سے ہونی چاہیے اور نیب ترامیم کے معاملے میں قومی اور ملکی مفاد کو سامنے رکھا جانا چاہیے۔ امید ہے حکومت اور پی ٹی آئی اتفاق رائے سے قانون سازی کریں گی۔

وکیل مخدوم علی نے کہا کہ سیاست کے بغیر جمہوریت کا کوئی تصور نہیں ہے اور دوسری جنگ عظیم کے بعد قومی حکومت کا تصور بھی موجود ہے۔ ہوسکتا ہے پی ٹی آئی پارلیمنٹ میں آکر کہے کہ جو نیب ترامیم ان کے دور میں ہوئیں وہ درست ہیں۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ چاہتے ہیں نیب ترامیم کا کیس جلد مکمل ہو کیونکہ نیب ترامیم کے فیصلے سے ملک میں قانون پر عملدرآمد متاثر ہو رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: پرویز الٰہی 10 سیٹوں پر وزیراعلیٰ بن سکتے ہیں تو ہمارا میئر بھی بن سکتا ہے، سعید غنی

چیف منصور علی شاہ نے عمران خان کے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ میں جا کر نیب ترامیمی بل پیش کر دیں۔ پی ٹی آئی والے پارلیمنٹ میں کیوں نہیں جا رہے؟

پی ٹی آئی کے وکیل خواجہ حارث نے جواب دیا کہ پی ٹی آئی سیاسی فیصلے کے تحت اسمبلی سے باہر آئی۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا مؤثر قانون چاہتے ہوں گے تو حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہتر قانون بنا سکتے ہیں۔ توقع ہے دونوں جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ اتنا کہہ دیں ترامیم کا اطلاق ماضی سے نہیں ہو گا تو 90 فیصد کیس ختم ہو جائیں گے اور ترامیم کے ماضی سے اطلاق کے حوالے سے قانون واضح ہے۔ مخدوم علی خان کو اسی لیے ہدایات لینے کا کہا ہے اور توقع ہے حکومت کھلے ذہن کے ساتھ معاملے کا جائزہ لے گی۔

انہوں نے کہا کہ سپریم کورٹ کئی مرتبہ آبزرویشن دے چکی کہ نیب ترامیم کیس پارلیمان میں حل ہونا چاہیے اور بادی النظر میں عمران خان کا کیس 184/3 کے زمرے میں آتا ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا مناسب نہیں ہو گا پی ٹی آئی اسمبلی میں ترمیمی بل لائے جس پر بحث ہو؟ اسمبلی میں بحث سے ممکن ہے کوئی اچھی چیز سامنے آجائے اور اگر پارلیمان سے مسئلہ حل نہ ہو تو عمران خان عدالت آسکتے ہیں۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے کہا کہ یہ دیکھنا اہم ہے کہ نیب ترامیم غیر آئینی ہیں یا نہیں جبکہ ایک وزیر نے آ کر وزارت کا حلف لیا اور عدالت میں پیش ہونے سے نیب کیسز ختم ہوئے۔ نیب ماضی میں سیاسی انجینئرنگ کے لیے استعمال ہوتا رہا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ آپ نیب کے کنڈکٹ کے خلاف درخواست لے کر آئیں عدالت ایکشن لے گی۔ ہمیں آزاد تفتیشی اور پراسیکیوٹرز چاہیئیں جبکہ تفتیشی افسروں اور پراسیکیوٹرز کی نالائقی کی وجہ سے قانونی نظام خراب ہوا۔ ملک کے قانونی نظام کو بہتر بنانا چاہتے ہیں۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ سپریم کورٹ ایسے شخص کا کیس کیوں سن رہی ہے جو پارلیمنٹ سے باہر ہے؟ اور عمران خان پارلیمنٹ کی بحث کا حصہ بننا چاہتے ہیں نہ ہی اس کے فیصلوں کو مانتے ہیں۔ عدالت کیوں اس شخص کے کیس کا فیصلہ کرے جو خود پارلیمنٹ کا حصہ بننا نہیں چاہتا؟ ایک شخص کے فیصلوں کی وجہ سے پورا سسٹم منجمد ہو رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ جہاں درخواست گزار موجود ہی نہیں تھے کیا اس کارروائی کو چیلنج کر سکتے ہیں؟ حکومت اور پی ٹی آئی دونوں ہی احتساب کا موثر قانون چاہتے ہوں گے۔

عدالت نے ریمارکس دیئے کہ حکومت اور پی ٹی آئی مل کر بہترین قانون بنا سکتے ہیں اور توقع ہے دونوں جانب سے دانشمندی کا مظاہرہ کیا جائے گا۔ عمران خان کی درخواست میں ٹھوس حقائق نہیں تھے اور آئے روز ٹھوس حقائق سامنے آرہے ہیں کہ ترامیم کے بعد مقدمات واپس ہورہے ہیں۔ اب تک 386 کیسز واپس ہوچکے ہیں اور کیا واپس ہونے والے کیسز کسی اور فورم پر نہیں جا سکتے؟۔

وکیل نے کہا کہ واپس ہونے والے کیسز کے لیے دیگر فورمز موجود ہیں جہاں چل سکتے ہیں اور جی آئی ڈی سی کیس میں عدالت نے قرار دیا کہ حاصل رقم صرف گیس منصوبوں پر خرچ ہو لیکن جی آئی ڈی سی سے حاصل رقم قومی خزانے میں جا کر غائب ہو گئی۔ نیب کو رضاکارانہ واپس کی گئی رقم بھی قومی خزانے میں نہیں آئی۔

چیف جسٹس نے کہا کہ رقم غائب ہونا ہی تو اصل مسئلہ ہے جسے روکنا ہے اور بدقسمتی ہے کہ عوام کا پیسہ کس کس طرح غائب کیا گیا۔ پی ٹی وی کے مطابق 70 کی دہائی میں پاکستان نے چین کو قرض دیا تھا اور پی آئی اے کبھی دنیا کی بہترین ایئرلائن ہوا کرتی تھی لیکن اب سب لوگ مفاد پرست ہوچکے ہیں اور عدالت دوسرے اداروں کا کام کرنے کے بجائے انہیں فعال کرنا چاہتی ہے۔ آئین پر عملدرآمد کے لیے عدالت ہر ادارے پر نظر رکھ سکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ عدالت نے ہمیشہ الیکشن کمیشن کو مضبوط کیا ہے اور آڈیٹر جنرل کو بھی مضبوط ہونا چاہیے تاکہ حکومتی کام میں شفافیت آسکے۔


متعلقہ خبریں