پاکستانی نژاد امریکی شہری گوانتاناموبے جیل سے رہا

پاکستانی نژاد امریکی شہری گوانتاناموبے جیل سے رہا

واشنگٹن: پاکستانی نژاد امریکی شہری کو گوانتانامو بے جیل سے امریکی فوج نے رہا کر دیا ہے۔

بدنام زمانہ جیل گوانتاناموبے سے2پاکستانیوں سمیت3 قیدی رہا

مؤقر امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق امریکی فوج نے اس حوالے سے کہا ہے کہ اس نے ایک پاکستانی کو جسے القاعدہ کی مدد کرنے کا اعتراف کرنے کے بعد 16 سال تک گوانتانامو بے جیل میں قید رکھا گیا، کو رہا کر دیا ہے۔

 

واضح رہے کہ امریکہ نے 2003 میں ماجد خان کو گرفتار کیا تھا اور گوانتانامو بے میں بھیجنے سے قبل ان سے تین سال تک امریکی انٹیلیجنس کے اہلکاروں نے تفتیش کی تھی۔

ماجد خان نے 2012 میں پاکستان کے صدر کے قتل کی سازش میں شریک ہونے اور انڈونیشیا کے ہوٹل پر بم حملے کی منصوبہ بندی کے لیے منی کوریئر کے طور پر کام کرنے کا بھی اعتراف کیا تھا لیکن اسے دو سال قبل ہی سزا سنائی گئی تھی۔

پینٹاگون نے گوانتاناموبے کے قیدیوں کو ویکسین دینے کا عمل روک دیا

42 سالہ ماجد خان کو 26 سال کی سزا ہوئی تھی مگر تعاون کے معاہدے کی بنیاد پر انہیں 2022 میں رہا کرنے کا وعدہ کیا گیا تھا جس پر عمل درآمد اب کیا گیا ہے۔

ماجد خان اس لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کے حامل گوانتاناموبے کے قیدی ہیں کہ انہوں نے امریکی فرجی عدالت میں باقاعدہ کہا تھا کہ انہیں شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا، کئی روز تک بنا خوراک و کپڑوں کے رکھا گیا، سی آئی اے کے تفتیش کاروں نے انہیں نہ صرف مارا پیٹا بلکہ انہیں زیادتی کا بھی نشانہ بنایا۔


امریکی دفاعی ادارے پینٹاگون نے ماجد خان کے متعلق کہا ہے کہ تعاون کے معاہدے کے احترام کی وجہ سے ان کی سزا میں کمی کی گئی ہے، کیریبئن اور وسطی امریکی ملک بیلیز نے ان کو قبول کرنے پر رضامندی بھی ظاہر کی ہے۔

گوانتاناموبے کی جیل سے رہا ہونے والے ماجد خان نے اس عزم کا اطہار کیا ہے کہ وہ بیلز میں ایک ریسٹورنٹ کھولیں گے جہاں اپنے ملک پاکستان کے کھانوں کو متعارف کرائیں گے کیونکہ وہ زبردست شیف بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ بصورت دیگر وہ فوڈ ٹرک کا کام شروع کردیں گے۔

صدر جوبائیڈن گوانتاناموبے جیل کو بند کرنا چاہتے ہیں، وائٹ ہاؤس

واضح رہے کہ گوانتانامو بے میں اب بھی 34 افراد قید ہیں جن میں  سے 20 کی رہائی کی منظوری دی جا چکی ہے جب کہ امریکی حکومت کو ان کے لیے کسی ایسے تیسرے ملک کی تلاش ہے جہاں وہ اپنی آئندہ کی زندگی گزار سکیں خواہ وہ تیسرا ملک ان کا اپنا آبائی وطن ہی کیوں نہ ہو۔


متعلقہ خبریں