روس و یوکرین کے درمیان امن معاہدے کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے روکا، سابق اسرائیلی وزیراعظم

روس و یوکرین کے درمیان امن معاہدے کو امریکہ اور اس کے اتحادیوں نےروکا، سابق اسرائیلی وزیراعظم

تل ابیب: سابق اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے انکشاف کیا ہے کہ روس اور یوکرین جنگ کے ابتدائی دنوں میں ان کی جانب سے امن معاہدے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے روک دیا تھا۔

پاکستان کیساتھ دفاع، تعلیم سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے خواہاں ہیں، روسی وزیر خارجہ

مؤقر جریدے اینٹی وار ڈاٹ کام کے مطابق انہوں نے یہ بات اپنے ہی یو ٹیوب چینل پر جاری کردہ اپنے ایک انٹرویو میں کہی ہے جو اتوار کے دن نشر کیا گیا۔

نفتالی بینیٹ نے دعویٰ کیا کہ 4 مارچ 2022 کو وہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن سے ملاقات کے لیے روس گئے جہاں انہوں نے دونوں ممالک کے درمیان اپنی ثالثی کی کوششوں کی بابت آگاہ کیا اور امن معاہدے کی بات کی تو دونوں فریقین نے اس وقت ایک دوسرے کو بڑی رعایتیں دینے پر اتفاق کیا۔

انہوں نے کہا کہ روس نے جنگ بندی کی ضرورت کے لیے فوری طور پر ’ڈینازیفیکیشن‘ کو ختم کردیا جس کے متعلق ان کا کہنا تھا کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ یوکرین کے صدر زیلنسکی کو نہ ہٹانا تھا اور ساتھ ہی پیوٹن نے گارنٹی دی کہ وہ اپنے یوکرینی ہم منصب کو مارنے کی بھی کوشش نہیں کریں گے۔

اپنے انٹرویو میں سابق اسرائیلی وزیراعظم نے کہا کہ روسی صدر نے یہ بھی ضمانت دی کہ وہ یوکرین کو غیر مسلح کرنے کی بھی کوشش نہیں کریں گے جب کہ یوکرین نے اس بات پر آمادگی ظاہر کی وہ نیٹو کی رکنیت کے حصول کی کوشش نہیں کرے گا جس کے متعلق اس کا مؤقف تھا کہ وہ صرف روسی حملے کی وجہ سے تھی۔

امریکہ کی صدر پیوٹن کو قتل کرنے کی کوشش ہے، روسی وزیر خارجہ

انٹرویو کے دوران پوچھے جانے والے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ اس وقت کے برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے جارحانہ انداز اختیار کیا جب کہ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون اور جرمن چانسلر اولاف شولز زیادہ عملیت پسند ” تھے البتہ امریکی صدر جو بائیڈن نے دونوں مؤقف اپنائے ہوئے تھے۔

سابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ سے جب پوچھا گیا کہ کیا مغربی طاقتوں نے ثالثی کی کوششوں کو مسدود کیاْ ؟ تو انہوں نے برملا کہا کہ ہاں،انہوں نے اسے مسدود کردیا اور میں نے سوچا کہ وہ غلط تھے۔

دلچسپ امر ہے کہ اسرائیل کے سابق وزیراعظم نفتالی بینیٹ کی جانب سے انٹرویو ایک ایسے وقت میں دیا گیا ہے کہ جب روس و یوکرین جنگ کی وجہ سے برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی معیشت کو سخت دھچکہ پہنچ چکا ہے ، بیروزگاری و مہنگائی عروج پر ہے اور وہاں کے عوام ارباب اقتدار کی پالیسیوں کی وجہ سے انتہائی سخت نالاں ہیں۔

ایک اور سوال کے جواب میں انہوں نے شام میں اسرائیل کے مسلسل فضائی حملوں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ جنگ میں کسی فریق کا انتخاب نہ کرنا اسرائیل کے قومی مفاد میں ہے۔ انہوں نے کہا روس کے پاس شام میں S-300 ایئر ڈیفنس ہے، اگر وہ بٹن دبائیں گے تو اسرائیلی پائلٹس گر جائیں گے۔

روس نے جوہری ہتھیاروں کا استعمال کیا تو امریکہ صدر پیوٹن کو قتل کرسکتا ہے، جان بولٹن

اینٹی وار ڈاٹ کام کے مطابق بینیٹ کی کوشش کے بعد مارچ میں روس اور یوکرائن کے حکام نے استنبول میں ملاقات، ورچوئل مشاورت کی  اور سابق امریکی حکام کے اکاؤنٹ کے تحت دونوں فریقین نے عارضی معاہدے کے فریم ورک پر اتفاق کیا جس کی تصدیق پیوٹن سمیت روسی حکام نے کی مگر پھر مغربی دباؤ کے بعد مذاکرات ناکام ہو گئے۔

ویب سائٹ کے مطابق اس وقت کے برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اپریل 2022 میں کیف کا دورہ کیا اور صدر زیلنسکی پر زور دیا کہ وہ روس کے ساتھ مذاکرات نہ کریں۔

اپریل میں ترک وزیر خارجہ  چاوش اولو (Mevlut Cavusoglu) نے کہا کہ نیٹو کے کچھ ممالک ہیں جو یوکرین میں جنگ کو طول دینا چاہتے ہیں، استنبول میں ہونے والے مذاکرات کے بعد ہم نے یہ نہیں سوچا تھا کہ جنگ میں اتنا طویل عرصہ لگے گا مگر نیٹو کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے بعد یہ تاثر تھا کہ نیٹو کے رکن ممالک کے اندر وہ لوگ ہیں جو جنگ جاری رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جنگ جاری رہنے سے روس کمزور ہو جائے گا، وہ یوکرین کی صورتحال کی بابت زیادہ پرواہ نہیں کرتے ہیں۔

یوکرین جنگ، بات چیت کی روسی پیشکش، کیف اور اتحادیوں نے کر دیا انکار

اینٹی وار ڈاٹ کام کے مطابق ترک وزیر خارجہ کی جانب سے کیے جانے والے تبصرے کے کچھ ہی دن بعد امریکی سیکریٹری دفاع جنرل (ر) لائیڈ آسٹن نے یہ کہہ کر اعتراف کیا کہ یوکرین کی حمایت میں امریکہ کا ایک مقصد روس کو کمزور دیکھنا ہے۔


متعلقہ خبریں