کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو بدل سکتا ہے، چیف جسٹس

umar ata banyal

چیف جسٹس عمر عطا بندیال الوداعی خطاب کے دوران آبدیدہ ہوگئے


اسلام آباد: الیکشن کمیشن کی جانب سے انتخابات ملتوی کرنے کے معاملے پر تحریک انصاف نے سپریم کورٹ میں درخواست جمع کروا دی۔

سپریم کورٹ نے فریقین کو نوٹس جاری کرتے ہوئے سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

سپریم کورٹ نے انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست سماعت کیلئے مقرر کرتے ہوئے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا،بینچ کی سربراہی چیف جسٹس پاکستان کریں گے، بینچ میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال،جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر،جسٹس امین الدین خان اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔

سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کیخلاف درخواست پر سماعت میں پی ٹی آئی کے وکیل نے کہا کہ سپریم کورٹ کے حکم کی3 مرتبہ توہین کی گئی۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال نے استفسار کیا کہ الیکشن شیڈول کب جاری ہوا تھا؟ وکیل نے جواب دیا الیکشن شیڈول 8 مارچ کو جاری کیا گیا،الیکشن کمیشن کے پاس تاریخ دینے کا اختیار ہی نہیں تھا،گورنر خیبرپختونخوا نے سپریم کورٹ حکم کے باوجود الیکشن کی تاریخ نہیں دی،وکیل کا کہنا تھا کہ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن سے مشاورت کے بعد 30 اپریل کی تاریخ دی،سپریم کورٹ کی جانب سے 90 روز کے قریب ترین تاریخ دینے کا حکم دیا گیا تھا۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ اسمبلی تحلیل کے 90 روزبعد الیکشن تاریخ دیکر بھی عدالتی توہین کی گئی،الیکشن کمیشن نے آئین کو ہی تبدیل یا معطل کر دیا، سپریم کورٹ کی جانب سے یکم مارچ کو انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ دیا گیا، 8مارچ کو الیکشن کمیشن نے پنجاب میں انتخاب کا شیڈول جاری کیا، الیکشن کمیشن نے صدر کا حکم ماننے سے انکار کرتے ہوئے نیا شیڈول جاری کر دیا۔

جسٹس جمال خان مندوخیل نے اس موقع پر کہا کہ سپریم کورٹ آنے سے پہلے ہائیکورٹ سے رجوع کیوں نہیں کیا گیا؟ ان کا کہنا تھا کہ انتخابات سے متعلق کیس ہائیکورٹ میں بھی زیر التوا تھا،کیا سپریم کورٹ اس کیس کو سن بھی سکتی ہے یا نہیں؟

اس موقع پر جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کا حکم تھا اس لیے عدالت اس کیس کو سن سکتی ہے۔

جسٹس جمال خان مندوخیل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ از خود نوٹس کا جو فیصلہ تھا اس پر تو تمام ججز کے دستخط نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ میرے خیال میں جج جمال خان عدالتی فیصلے پر دستخط نہ ہونے کی بات کر رہے ہیں،چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے اکثریتی حکم کی سمری پر ججز کے دستخط ہیں،

اہم سوال یہ ہے کہ کیا الیکشن کمیشن صدر مملکت کی دی گئی تاریخ کو بدل سکتا ہے،یہ پہلی بار ہوا ہے کہ الیکشن کمیشن نے صدر کی دی گئی تاریخ کو بدل دیا ہے،سپریم کورٹ فیصلے بھی موجود نہیں جن میں اس طرح الیکشن کی تاریخ تبدیل کی گئی ہو،ہم نے دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کے پاس صدر کی دی گئی تاریخ کو بدلنے کا اختیار ہے یا نہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل علی ظفر سے سوال کرتے ہوئے پوچھا کہ عدالت سے کیا چاہتے ہیں؟

وکیل کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ آئین اور اپنے حکم پر عملدرآمد کرائے، جس پر جسٹس جمال مندوخیل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم پر عملدرآمد ہائیکورٹ کا کام ہے۔

وکیل علی ظفر نے کہا کہ فنڈز نہ ہونے کی وجہ مان لی تو الیکشن کبھی نہیں ہوں گے، معاملہ صرف عدالتی احکامات کا نہیں، سپریم کورٹ کا اختیار اب بھی ختم نہیں ہوا۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ سپریم کورٹ حکم کے راستے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ رکاوٹ بنا، سپریم کورٹ ہی بہتر فیصلہ کر سکتی ہے کہ احکامات کی خلاف ورزی ہوئی یا نہیں۔

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ مانتے ہیں کہ الیکشن کی تاریخ میں توسیع کی گئی لیکن کیا اس کااختیار الیکشن کمیشن کے پاس ہے؟ ماضی میں ایسے واقعات ہوئے جس کی وجہ سے انتخابات میں تاخیر ہوئی،انتخابات میں تاخیر بے نظیر بھٹو کی شہادت کے وقت ہوئی، دوسری بارجب1988میں اٹوکریٹک حکومت سے ڈیموکریٹک کو قتدار منتقل ہونا تھی اس وقت ہوئی۔


متعلقہ خبریں