الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا، جسٹس منیب اختر


اسلام آباد:سپریم کورٹ میں انتخابات ملتوی کرنے کے خلاف درخواست پر سماعت کرتے ہوئے چیف چسٹس عمر عطاء بندیال نے نئے اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کو خوش آمدیدکہا۔

اٹارنی جنرل نے تحریک انصاف کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر اعتراض اٹھا دیا ہے۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ عدالت میں فاروق نائیک بھی موجود ہیں، سیاسی پارٹیوں پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے بات کی تھی، چیف جسٹس نے کہا کہ سینئرپارلیمنٹ اراکین عدالت میں کھڑے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جمہوریت میں برابری کی بات کی جاتی ہے،جمہوریت میں رول آف لا بھی ایک عنصر ہے،ہم نے حقیقت کو بھی دیکھنا ہے،ہمیں معاشرے اور سیاسی قیادت میں ایک ڈسپلن دیکھنا ہے۔

اس موقع پر فاروق نائیک نے کہا کہ عدالت کو ملکی زمینی حقائق کو سامنے رکھنا ہوگا،ملک کے تمام منتخب نمائندوں کو سننا ہوگا،ہمیں اپنی نسلوں کے مستقبل کو تحفظ دینے کے لیے سوچنا ہوگا۔

چیف جسٹس عمرعطابندیال کا کہنا تھا کہ معاملے کو آج سماعت کے آخر میں دیکھتے ہیں۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ یہ معاملہ آپ پارلیمنٹ میں کیوں حل نہیں کرتے؟

چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ سپریم کورٹ اچھی نیت کیساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لیکر جاتے ہیں،عدالت نے حقیقت کو دیکھ کر آگے بڑھنا ہے،عدالت کا یکم مارچ کا فیصلہ اس وقت موجود ہے،انتخابات کا اعلان صدر مملکت کرچکے تھے،جو کارروائی ہوئی تھی وہ تاریخ مقرر کرنے کی نہیں جو مسترد کی گئی تھی اس پر تھی،چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ جمہوریت حکومت کا ایک ایسا نظام ہے جس سے نظام چلایا جاتا ہے۔

اٹارنی جنرل نے سپریم کورٹ میں کہا کہ عدالتی فیصلہ اگر چار تین کا ہوا تو کسی حکم کا وجود ہی نہیں جس کی خلاف ورزی ہوئی،عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، یکم مارچ کے عدالتی حکم کو پہلے طے کر لیا جائے۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ا ٹارنی جنرل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ اس وقت مقدمہ تاریخ دینے کا نہیں منسوخ کرنے کا ہے،جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں، تکنیکی بنیادوں پر معاملہ خراب نہ کریں،سپریم کورٹ کے یکم مارچ کے فیصلے پر عملدرآمد ہوچکا ہے،اس معاملے کو دوبارہ اٹھا کر عدالت میں پیش نہ کیا جائے،چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ لوگ آٹے کیلئے لائنوں میں لگے ہوئے ہیں،پی ٹی آئی اور حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ملکی حالات کو بہتر کیا جائے،تمام قومی اداروں کا احترام لازمی ہے۔

اٹارنی جنرل نے انتخابات کیس میں فل کورٹ بینچ بنانے کی استدعا کرتے ہوئے پی ٹی آئی کی درخواست کے قابل سماعت ہونے پر بھی اعتراض اٹھا دیا۔

اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ عدالتی حکم نہیں تھا تو صدر مملکت تاریخ بھی نہیں دے سکتے تھے، چیف جسٹس نے ریمارکس میں کہا کہ دیکھنا ہے کہ الیکشن کمیشن کو اختیار تھا یا نہیں،جمہوریت کیلئے انتخابات ضروری ہیں۔

اس موقع پر وکیل پی ٹی آئی علی ظفر نے کہا کہ ہر ادارے کو اپنی آئینی حدود میں کام کرنا ہے، جس پر چیف جسٹس نے ان سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپکی اعلیٰ قیادت سے بھی ایسے رویے کی توقع ہے، کیا آپ نے اپنی سیاسی قیادت سے بات کی؟ پی ٹی آئی کو پہل کرنی ہوگی کیونکہ عدالت سے رجوع انہوں نے کیا ہے،ملک میں اس وقت تشدد اور عدم برداشت ہے،چیف جسٹس عمرعطابندیال نے کہا کہ آپس میں دست و گریبان ہونے کے بجائے لوگوں کا سوچیں۔

اس موقع پر وکیل کا کہنا تھا کہ انتخابات میں تاخیر ہوئی تو یہ بحران مزید بڑھے گا۔

جسٹس منیر اختر نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کمیشن کو کوئی مسئلہ درپیش تھا تو عدالت کو آکر بتاتے،الیکشن کمیشن انتخابات نہ کرائے اور حکومت کہہ دے کہ ہم تیار ہیں پھر کیا ہوگا؟

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا،2008میں انتخابات تاخیر کا شکار ہوئے تھے۔

وکیل علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے آئین کے دو آرٹیکلز کا سہارا لیا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن نے وجوہات بتا کر کہا آئینی ذمہ داری ادا کرنے سے قاصر ہیں، انہوں نے استفسار کیا کہ اگر الیکشن کمیشن8 اکتوبر کی تاریخ نہ دیتا تو کیا ہوتا؟

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن تاریخ تبدیل کرنے کیلئے صدر سے رجوع کرسکتا تھا،تمام انتظامی ادارے الیکشن کمیشن سے تعاون کے پابند ہیں،وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی الیکشن کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے، الیکشن کمیشن نے صرف اداروں سے موقف لے کر فیصلہ لکھ دیا،عدالت الیکشن کمیشن سے پوچھے کہ آئینی اختیار استعمال کیوں نہیں کیا گیا،وکیل نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ انتظامی ادارے تعاون نہ کریں تو آرٹیکل 5 کا اطلاق ہوگا،الیکشن کے مطابق آرٹیکل 254 الیکشن منسوخ کرنے کا اختیار دیتا ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن کی تاریخ پہلے ہی 90 دن کے بعد کی تھی، استفسار کرتے ہوئے کہا کہ کیا 90 دن بعد کی تاریخ درست تھی؟
وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ اب بھی عدالت حکم دے تو 90 دن میں الیکشن نہیں ہو سکتا۔

جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ صدر نے بھی الیکشن کی تاریخ نوے دن کے بعد کی دی،آرٹیکل 254 کا سہارا کام ہونے کے بعد لیا جا سکتا ہے پہلے نہیں۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ عملی طور پر الیکشن 90 دن میں ممکن نہ ہوں تو عدالت حکم دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ الیکشن ایکٹ کا سیکشن 58 انتخابات منسوخ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ وجوہات ٹھوس ہوں تو ہی کمیشن رجوع کرسکتا ہے۔

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ آرٹیکل220 تمام حکومتوں اور اداروں کو کمیشن سے تعاون کا پابند کرتا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس میں کہا کہ اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن کو عدالت سے رجوع کرنا چاہیے تھا، ایک اسمبلی کے شیڈول کے دوران دوسری اسمبلی تحلیل ہو جائے تو ایک ہی دن انتخابات کے لیے رجوع کیا جا سکتا ہے،الیکشن کمیشن ازخود ایسا حکم جاری نہیں کر سکتا،الیکشن کمیشن6ماہ الیکشن آگے کر سکتا ہے تو 2سال بھی کر سکے گا۔

جسٹس جمال مندو خیل نے ریمارکس دیے کہ انتخابات آگے کون لے جا سکتا ہے یہاں آئین خاموش ہے، کیا پارلیمنٹ کو آئین میں ترمیم نہیں کرنی چاہیے؟

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ پارلیمنٹ ترمیم کر لے تو یہ سب سے اچھا ہو گا،سوال یہ ہے کہ ترمیم ہونے تک جو انتخابات ہونے ہیں ان کا کیا ہو گا؟

وکیل علی ظفر کا کہنا تھا کہ جس بنیاد پر الیکشن ملتوی ہوئے اس طرح تو کبھی الیکشن نہیں ہو سکتے۔

جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیے کہ اگر فنڈز کا معاملہ ہے تو نگراں حکومت فنڈز کیسے دے گی، اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ جو مسائل آج ہیں وہ 8 اکتوبر کو کیسے نہیں ہوں گے؟

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ ان انتخابات پر کتنا خرچہ آرہا ہے؟ جس کے جواب میں الیکشن کمیشن حکام نے کہا کہ ان انتخابات پر 20 ارب سے زائد کا خرچہ آئے گا۔

اس موقع پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ وزیر خزانہ کا بیان پڑھا تھا جس میں فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ میں 500 ارب جمع ہوئے ہیں،انہوں نے استفسار کیا کہ یہ فیڈرل کنسولییڈیٹڈ فنڈ کہاں پڑا ہوتا ہے؟500 ارب کی ٹیکس وصولی میں سے 20 ارب کا خرچہ نکالا جاسکتا ہے؟

اس موقع پر وکیل علی ظفر نے کہا کہ اس کا جواب وزارت خزانہ والے دے سکتے ہیں،الیکشن کمیشن کو وزارت خزانہ نے فنڈز کی فراہمی سے انکار کردیا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کیا کہ یہ انکار وزارت خزانہ کیسے کرسکتا ہے؟

اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اگر ایف سی ایف اکاونٹ سے کچھ نیشنل کاز کیلئے رقم استعمال کی جائے تو کیا ہوگا؟ اس نیشنل کاز کے لیے جو لوگ تنخواہیں لے رہے ہیں ان کو کٹ لگایا جا سکتا ہے، اگر تنخواہوں کو کٹ لگایا جائے تو ایک اہم انتخابات کا ٹاسک مکمل کیا جاسکتا ہے،انہوں نے کہا کہ اس سب پر جواب وزارت خزانہ ہی دے سکتی ہے۔


متعلقہ خبریں