اس وقت سیاسی ٹمپریچر بہت ہائی ہے، چیف جسٹس


اسلام آباد: پنجاب اور خیبرپختونخوا کے انتخابات بارے تحریک انصاف کی درخواست پر سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ اس وقت سیاسی ٹمپریچر بہت ہائی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ رپورٹس میں بھکر میانوالی میں ٹی ٹی پی سندھو دیش، کالعدم تنظیموں کی موجودگی ظاہر کی گئی، وکیل کا کہنا تھا کہ الیکشن کے لیے چار لاکھ بارہ ہزار پولیس کی نفری طلب کی گئی،جس پر بتایا گیا کہ دو لاکھ ستانوے ہزار سیکیورٹی اہلکاروں کی کمی کا سامنا ہے۔

جسٹس منیب اختر نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ آپ 8 فروری کے لیٹرز پر انحصار کر رہے ہیں؟عدالت نے یکم مارچ کو اپنا فیصلہ دیا،کیا آپ کو فروری میں خیال تھا کہ اکتوبر میں الیکشن کروانا ہے؟ دوسری طرف آپ کہتے ہیں کہ عدالتی فیصلے سے انحراف کا سوچ نہیں سکتے اگر اکتوبر میں الیکشن کروانا تھا تو صدر کو 30 اپریل کی تاریخ کیوں دی؟

جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ بہت سارے سوالات ہیں،جسٹس منیب اختر کے سوالات نوٹ کر لیں،چیف جسٹس نے وکیل سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ دلائل کے بعد ان سوالوں کے جواب دیں۔

وکیل سجیل سواتی نے کہا کہ الیکشن کمیشن نے فیصلہ 22 مارچ کو کیا،اس سے پہلے یہ گراؤنڈز دستیاب تھے، اس کے بعدالیکشن سے متعلق میٹنگ ہوئی، وزارت داخلہ نے بھی 8 فروری کے خط میں امن و امان کی خراب صورتحال کا ذکر کیا۔

جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن فیصلے میں 20 ارب روپے کا ذکر ہے لیکن عدالت کو 25 ارب کا بتایا گیا۔

جس پر وکیل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پانچ ارب روپے پہلے ہی الیکشن کمیشن کو جاری ہو چکے ہیں،وزارت خزانہ نے بتایا کہ مالی سال میں الیکشن کے لیے فنڈز جاری نہیں کر سکتے، وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ سیکریٹری خزانہ نے بتایا کہ 20 ارب روپے جاری کرنا ناممکن ہو گا۔

چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن سے مکالمہ کرتے ہوئے کہا کہ آپ نے جو باتیں بتائی ہیں وہ اہم معلومات ہیں،یہ باتیں آپ صدر مملکت کو بتا سکتے تھے،خیبرپختونخوا کا جو ڈیٹا بتایا گیا وہ سنجیدہ ہے۔

وکیل کا کہنا تھا کہ ایجنسیوں کی رپورٹ کو کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔

اس موقع پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا ان رپورٹس کو کاونٹر چیک کرتے ہیں؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہمیں معلوم ہے کہ دہشتگردی بڑا مسئلہ ہے،یہ 20سال سے ہے،نوے کی دہائی میں جب فرقہ واریت بھی تھی، 58ٹوبی کی شق موجود تھی، چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق باتیں بہت اہم ہیں کیا یہ سب صدر مملکت کو بتایا گیا؟

وکیل الیکشن کمیشن کا کہنا تھا کہ تمام صورتحال سے متعلقہ حکام کو آگاہ کیا تھا۔ اس موقع پر جسٹس جمال خان نے استفسار کیا کہ کیا الیکشن کیلئے قومی اسمبلی نے فنڈز کی منظور دی ہوئی ہے۔

جس پر وکیل سجیل سواتی نے جواب دیا کہ وزارت خزانہ اس بات کا تفصیل سے جواب دے سکتی ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن تو ہر صورت 2023 میں ہونا تھے، کیا بجٹ میں 2023 الیکشن کیلئے بجٹ نہیں رکھا گیا تھا۔

جس پر اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ انتخابات کیلئے بجٹ آئندہ مالی سال میں رکھنا ہے، قبل ازوقت اسمبلی تحلیل ہوئی اس کا علم نہیں تھا۔

چیف جسٹس نے استفسار کرتے ہوئے کہا کہ اگر انتخابات پورے ملک میں ایک ساتھ ہوں تو کتنا خرچ ہوگا، اٹارنی جنرل نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ملک بھر میں ایک ہی دفعہ انتخابات ہوں تو 47ارب روپے خرچ ہوں گے، انتخابات الگ الگ ہوں تو بیس ارب روپے اضافی خرچ ہوگا۔

چیف جسٹس کا اپنے ریمارکس میں کہنا تھا کہ اس وقت سیاسی ٹمپریچر بہت ہائی ہے، اس وقت وہ ماحول کم نہیں ہوسکتا، ہم اس کیس میں مکمل سیاسی کانفیڈنس چاہتے ہیں۔

گزشتہ روز ہونے والی سماعت کے دوران چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کیے جاسکتے ہیں، ان کا کہنا تھا کہ سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائے گی۔


متعلقہ خبریں