عدالتی اصلاحات بل سینیٹ سے بھی منظور، اپوزیشن کا شدید احتجاج

سینٹ انتخابات

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل  سینیٹ میں  منظور کر ددیا گیا۔

سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجرز بل کے حق میں 60اورمخالفت میں 19ووٹ آئے۔

بل کی منظوری کے بعد اپوزیشن اراکین نے شدید احتجاج کیا جبکہ پی ٹی  آئی کے ارکان  چیئرمین سینیٹ کے  ڈائس کے گرد جمع ہوئے۔

اس سے قبل عدالتی اصلاحات بل قومی اسمبلی سے بھی منظور ہوچکا ہے۔ سینیٹ اجلاس، وکلافلاح اور تحفظ بل بھی ایوان سے منظور کیا گیا۔

اس بل کے مطابق سوموٹو کا اختیار سپریم کورٹ کے تین ججز کو حاصل ہو گا۔ وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کاکہنا تھا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 قائمہ کمیٹی کو سونپا گیا تھا، کمیٹی نے بل میں کچھ ترامیم تجویز کی ہیں۔

بل وزیرقانون  اعظم نذیر تارڑ نے ایوان میں  پیش کیا تو تحریک انصاف کے ارکان کی بل  کی  مخالفت تحریک انصاف کے سینیٹرز اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے۔

وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ادارے چلانے کے لیے مختلف رویوں کا سامنا ہے، آئین کے آرٹیکل  191کے تابع پارلیمان آئین  میں ترمیم کرسکتی ہے،آئین کہتاہے ایک دوسرے کے حدود میں  غیر ضروری مداخلت نہ کریں ،قوانین میں  ردوبدل کی گنجائش رکھنی پڑتی ہے،

قانون  ڈٹ کرکھڑا نہیں ہوتا،ردوبدل سے ممکن ہوتاہے، ایسے کیسز پر سوموٹو لئے گئے کہ لوگوں نے دانتوں کے نیچے انگلیاں دبالیں، اب چیف جسٹس کے ساتھ  2سینئر ترین ججز سوموٹو  کا فیصلہ کریں گے، سپریم کورٹ کے تمام ججز برابر ہیں، یہ دیرینہ مطالبہ تھا ،سپریم کورٹ سے آواز آئی  کہ فردواحد کا اختیار نہیں ہوناچاہیے۔

اس سے قبل سینٹ کے اجلاس میں خطاب کرتے ہوئے وزیرجزانہ اسحاق ڈار نے فیصل جاوید کو معیشت پر مناظرے کا جیلنج دے دیا، کہتے ہیں فیصل جاوید نے اپنی تقریر میں دونوں ادوار کے موزنے کی اچھی تجویز پیش کی ہے، 2018 میں معیشت کیا تھی اور 2022 میں کیا رہی اور آج کیا ہے، موزنہ کیا جائے، چیئرمین سینیٹ مناظرے کے لئے اگلے ہفتے کوئی دن مقرر کرلیں۔

پی ٹی آئی کے سنیٹر فیصل جاوید نے اپنے خطاب میں کہا کہ پی ٹی آئی کے دور میں معیشت سنبھل رہی تھی، ذرمبادلہ اور پرآمدات بڑھ رہے تھے، معیشت 6 فیصد کے تناسش سے بڑھ رہی تھی۔

سینیٹ کے اجلاس میں رضاربانی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ ماننے سے قاصر ہوں کہ   بل کا تعلق 90 دن میں الیکشن کروانے سے ہے، بار کونسل کے دیرینہ مطالبات تھے سوموٹو کے قانون پر نظرثانی کی جائے ، ملک میں ادارے آپس میں باہم دست وگریباں ہوں تو خطرے کی گھنٹی ہے، بار کونسل  کا عدالتی اصلاحات کا مطالبہ پہلے سے تھا اب آواز سپریم کورٹ سے بھی اٹھنے لگی۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر اور اپوزیش لیڈر وسیم شہزاد نے سینیٹ کے خطاب میں کہا کہ ہمیں پالیسی بیان  پر ردعمل  ظاہر کرنے نہیں دیا جارہا ہے ،وقفہ سوالات  کے جوابات  میں  پالیسی   بیانات دیئے جارہے ہیں ، پالیسی کے دوران سوال کرنے کی بھی اجازت نہیں، بیان آیا ہے کہ یہ ملک ڈیفالٹ کرنے کے قریب ہے، یہ لوگ ایک دن بھی پیٹرول پر سبسڈی نہیں دے سکتے ، آئی ایم ایف ان کو آنکھیں دکھاتا ہے، اسٹیٹ بینک کا قانون ملکی مفاد کے خلاف ہے تو تبدیل کیوں نہیں ہوا، وسیم شہزاد کے خطاب کے جواب مین وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم نے ملک  آئی ایم ایف کے بغیر چلانا ہے۔

پی ٹی آئی کے سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ قانون سازی کو دیکھنا بحث کرنا ہمارا فرض ہے ،آئین میں ترمیم کے بغیر ہم عدلیہ کے اختیارات کو کم نہیں کر سکتے ،یہ بل نارمل بل کے طور پر پیش ہو رہا ہے آئینی ترمیم ہونا چاہیے ، اگر یہ بل منظور کرتے ہیں کہ اگلے 15روز میں  بل کو کالعدم قرار دیا جائے گا ،آپ سپریم کورٹ کے اختیارات پر آئینی ترمیم کے بغیر بات کر ہی نہیں سکتے، یہ بل آئین کے خلاف ہے اور میں اس کا حصہ نہیں بنوں گا،جب پتہ ہو ہم غلط کام کرنے جا رہے ہیں توحصہ کیوں بنوں؟


متعلقہ خبریں