سری پائے، کھانے کے نہیں دیکھنے کے


سری پائے کا نام ذہن میں آتے ہی زبان ایک لذیذ ڈش کا ذائقہ محسوس کرنے لگتی ہے جو برصغیر پاک و ہند کے طول و عرض میں نہایت رغبت سے کھائی جاتی ہے لیکن ضلع مانسہرہ کی وادی شوگران میں سری پائے کھائے بھی جاتے ہیں اور دیکھے بھی جاتے ہیں۔
جی ہاں جس سری پائے کا ذکر ہم کر رہے ہیں وہاں ٹھنڈی میٹھی ہوائیں آپ سے اٹھکیلیاں کرتی ہیں اور بادلوں کے آوارہ ٹکڑے آنکھ مچولی کھیلتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ سری اور پائے کو شوگران کا تاج اور شوگران کے کندھے جیسے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔


شوگران ویسے تو مانسہرہ سے 67 کلومیٹر کے فاصلے پر ہے لیکن پر پیچ، دشوار گزار پہاڑی راستوں کے باعث یہاں پہنچنے میں ڈھائی گھنٹے لگ جاتے ہیں۔ بالا کوٹ سے 25 کلومیٹر دور کیوائی کے خوابیدہ قصبے سے گھنے درختوں میں گھری سانپ کی طرح بل کھاتی اور پہاڑ کے چاروں جانب گھومتی سڑک 7749 فٹ بلند جنت نظیر شوگران تک پہنچتی ہے جبکہ یہاں سے محض پانچ کلومیٹر پر8500 فٹ بلند سری واقع ہے۔
ویسے تو سری آنے کے لیے جیپ بھی دستیاب ہے لیکن شوگران سے نصف گھنٹے میں پیدل سری پہنچا جا سکتا ہے۔ سری کا پورا علاقہ نہایت سر سبز اور بلند و بالا پہاڑوں کی سرزمین ہے۔ یہ چونکہ غیر آباد ہے اس لیے سیاح اکثر شوگران میں ہی قیام کرتے ہیں اور قدرت کے حسین نظاروں سے لطف اندوز ہونے سری آتے ہیں۔

سری میں کیمپنگ کی سہولت البتہ موجود ہے لیکن کھانے پینے کا سامان اور دیگر ضروری اشیا آپ کو شوگران سے ہی لے جانی پڑیں گی۔

سری میں ایک خوبصورت جھیل اور شاندار ریسٹ ہاؤس بھی موجود ہے جس کے لان میں میں بیٹھ کر آپ جمالیاتی حسن سے اپنی آنکھیں سیراب کر سکتے ہیں۔


موسم کی انگڑائیاں یہاں کی خوبصورتی کو مزید نکھار دیتی ہیں۔ جاڑے میں سخت سردی ہوتی ہے لیکن گرمیوں میں بھی موسم اس حد تک خنک اور ٹھندا ہوتا ہے کہ بغیر گرم کپڑوں کے آپ یہاں رات قیام نہیں کرسکتے۔
سری کو شوگران اور پائے کی سیاحت کا نقطہ عروج قرار دیا جاتا ہے اس لیے سیاح فورا ہی سری کے حسن کو دیکھنے کے لیے بے تاب ہو جاتے ہیں اور سری کے سرسبز مخملیں قالین اور صاف شفاف جھیل سے لطف اندوز ہو کر پائے کا رخ کرتے ہیں۔


سری سے محض تین کلومیٹر کے فاصلے پر کوہ مکڑا کے دامن میں پائے واقع ہے۔ سری اگر خوبصورتی میں لاجواب ہے تو پائے دلکشی میں بے مثال ہے۔
یہاں سری کی نسبت بادل آپ سے زیادہ قریب ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ بادل باقاعدہ آپ کو اپنی آغوش میں لینے کو بے تاب ہیں۔
پائے میں لاتعداد جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں جن سے اٹے میدانوں سے اٹھنے والی بھینی بھینی خوشبو سے انسان پر ایک خمار سا طاری ہو جاتا ہے۔ سر سبز گھاس اس مقام کو صحت افزا بناتی ہے جبکہ یہاں ایک ایسا پودا بھی پایا جاتا ہے جس کی شکل سانپ سے ملتی جلتی ہے۔
پائے میں بھی ایک جھیل ہے جسے 11200 فٹ بلند کوہ مکڑا، 17356 فٹ بلند ملکہ پربت اور 13390 فٹ بلند موسیٰ کا مصلیٰ کے علاوہ کشمیر کے سر بہ فلک پہاڑوں نے اپنے دامن میں چھپا رکھا ہے۔


سری پائے اپنے نام کی طرح منفرد اور دلچسپ ہیں۔ اگران کا انگریزی زبان میں ترجمہ کیا جائے تو یہ Head اورFeet بنتے ہیں، بعض لوگ ان ناموں پر ہنستے بھی ہیں لیکن مقامی افراد کے ساتھ ساتھ سیاح بھی ان دونوں مقامات سے بے حد متاثر ہوتے ہیں۔
سری پائے کے نام کے حوالے سے بھی لوگ مختلف کہانیاں بیان کرتے ہیں۔ کچھ کا کہنا ہے کہ یہاں سری نام کی ایک پریوں جیسی ہندو لڑکی رہا کرتی تھی جسے اپنے ہم ذات لڑکے پائے سے محبت ہو گئی تھی اور وہ اسی علاقے میں رہتا تھا جس کا نام اب پائے ہے۔


یہ تو علم نہیں کہ اس سری پائے کا ملن ہو پایا یا نہیں لیکن ان جگہوں کے نام ان سے موسوم ضرور ہو گئے۔
ایک دوسری کہانی کے مطابق گئے دنوں میں یہاں ایک خونخوار شیر کا بسیرا تھا جس سے لوگ بے حد خوفزدہ تھے۔ ایک بار وہ ایک دیہاتی کی بکری اٹھا لے گیا۔ کئی روز تک تو لوگوں نے مارے خوف کے شیریا بکری کی کوئی خیر خبر ہی نہیں لی لیکن بعد میں انہوں نے دیکھا کہ شیر بکری کو تو کھا پی کر برابر کر چکا ہے البتہ اس نے بکری کا سر ایک چٹان اور اس کے پاؤں دوسری چٹان پر چھوڑ دیے ہیں۔
بس تب سے یہ مقام سری اور پائے بن گئے۔
لیکن ان سے زیادہ قابل قبول اور مبنی برحقیقت بات یہ ہے کہ مقامی زبان ہندکو کے علاوہ پنجابی اور سرائیکی میں سر کا مطلب ہے جھیل اور سری سے مراد چھوٹی جھیل ہوسکتا ہے جبک ہندکو میں ہی پایہ بلند و بالا سر سبز و شاداب میدان کو کہا جاتا ہے۔
چنانچہ محقق متفق ہیں کہ چھوٹی جھیل اور بلند سبزہ زار کی مناسبت سے یہ سری پایہ ہی تھا جو وقت کے ساتھ ساتھ سری پائے میں تبدیل ہوگیا۔


ساڑھے نو ہزار فٹ کی بلندی پر ہونے کے باعث پائے میں آکسیجن کی کمی ہے اور اکثر سانس لینا دشوار ہوجاتا ہے لیکن سیاح پھر بھی کثیر تعداد میں یہاں آتے ہیں کیونکہ ان کا کہنا یہ ہے کہ جب دلکش نظارے سامنے ہوں تو پھر سانس رک بھی جائے تو کس کو پروا۔


متعلقہ خبریں