عوامی تحریک کے بانی سربراہ رسول بخش پلیجو انتقال کرگئے


کراچی: عوامی تحریک کے بانی سربراہ رسول بخش پلیجو 87 برس کی عمر میں انتقال کر گئے۔ ممتاز قانوندان، متعدد کتب کے مصنف اور کئی ملک گیر سیاسی تحریکوں میں انتہائی فعال کردارادارکرنے والے رسول بخش پلیجو گزشتہ کافی عرصے سے علیل تھے۔ ان کا انتقال کلفٹن میں واقع ایک نجی اسپتال میں ہوا۔ وہ سانس، دل اور سینے کے عارضے میں مبتلا تھے۔

سندھ کی قوم پرست جماعت ’عوامی تحریک‘ کے بانی سربراہ  کی تدفین آج شام ان کے آبائی علاقے جھنگ شاہی ٹھٹھہ میں کی جائے گی۔

رسول بخش پلیجو 21 فروری 1930 کو ضلع ٹھٹھہ کے علاقے جھنگ شاہی میں پیدا ہوئے تھے۔ ان کے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو ’قومی عوامی تحریک‘ کے سربراہ ہیں۔ بھتیجی سینیٹر سسی پلیجو پی پی پی کی جانب سے سینیٹ میں نمائندگی کرتی ہیں۔

رسول بخش پلیجو اس عوامی نیشنل پارٹی کے جنرل سیکریٹری تھے جس کے صدر خان عبدالولی خان تھے۔ آصف علی زرداری کے والد مرحوم حاکم علی زرداری اس جماعت کے سندھ میں جنرل سیکریٹری تھے۔

رسول بخش پلیجو نے بعض سندھی ادیبوں و شعرا کے ہمراہ سندھی عوامی تحریک کے نام سے 1970 میں ایک تنظیم کی بنیاد رکھی تو سندھ کے ممتاز شاعر و دانشور شیخ ایاز اس کے نائب صدر بنے۔ عملاً یہیں سے ان کی عملی سیاست کا آغاز ہوا۔

سندھ مدرستہ الاسلام کراچی سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد سندھ لاء کالج سے گریجویشن کرنے والے رسول بخش پلیجو نے بحیثیت وکیل خدمات سرانجام دیں۔

رسول بخش پلیجو نے ون یونٹ کے خاتمے اورایم آر ڈی ( تحریک بحالی جمہوریت) میں سرگرم کردار ادا کیا ۔ انہوں نے سندھ میں خواتین سیاست کو منظم کیا اور طلبہ سیاست کوفعال کرنے میں بھرپور کردار ادا کیا۔ اس ضمن میں بھی ان پر تنقید ہوئی۔

1983 کی ایم آر ڈی موومنٹ کے دوران ان کے سیاسی روابط پاکستان پیپلزپارٹی سے اچھی طرح مستحکم ہوگئے تھے۔  پی پی پی قیادت نے 1988 کے عام انتخابات میں جب ان کے مدمقابل اپنا امیدوار ٹھٹھہ سے میدان میں اتارا تو وہ اس طرح ناراض ہوئے کہ پھر ’مان‘ کے نہ دیے۔

ممتاز سیاستدان رسول بخش پلیجو کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے اپنی ضعیف العمری اور ناسازی طبیعت کی بنیاد پر عملی سیاست سے علیحدگی اختیار کرتے ہوئے عوامی تحریک کی سربراہی اپنے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو کو منتقل کی۔

سندھ کے متعددروشن خیال قوم پرستوں کی جانب سے ان پر اس حوالے سے تنقید کی گئی۔ ان پر تنقید کرنے والوں کا مؤقف تھا کہ ساری زندگی جمہوری سیاست کی نذر کرنے والے ترقی پسند سیاستدان نے بھی سیاسی ’وراثت‘ کو اسی طرح اپنے بیٹے کو منتقل کی جس طرح گدی یا  جاگیر منتقل کی جاتی ہے۔ اس ضمن میں انہوں نے کئی انٹرویوزمیں وضاحتیں بھی پیش کیں۔

اکتوبر 2016 میں انہوں نے اپنے صاحبزادے ایاز لطیف پلیجو سے سیاسی لاتعلقی اور ناراضگی ظاہر کرتے ہوئے قومی عوامی تحریک سے علیحدگی اختیارکرکے دوبارہ اپنی جماعت عوامی تحریک کی بحالی کا بھی اعلان کیا تھا لیکن بوجوہ طبیعت کی ناسازی وہ ازسرنو اپنی جماعت متحرک و یکجا نہ کرسکے۔

یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ جدیدیت کے علمبردار،مزدوروں و کسانوں کے حامی، بائیں بازو کی سیاست کا دم بھرنے والے ایم آرڈی موومنٹ کے چاربڑے ناموں کی سیاسی ’وراثت‘ بھی خاندانی گدی کی طرح صاحبزادوں کو منتقل ہوئی۔ رسول بخش پلیجو کی شناخت ایاز لطیف پلیجو ہیں، خان عبدالولی خان کی کا مشن اسفندیار ولی خان نے سنبھالا ہوا ہے،  حاکم علی زرداری کے سیاسی جان نشین آصف علی زرداری ہیں توفاضل راہو کے نام پر اسماعیل راہو سیاست میں ہیں۔

زندگی کے گیارہ قیمتی سال جیلوں کی نذر کرنے والے رسول بخش پلیجو نے مشہورزمانہ کوٹ لکھپت جیل میں قید کے دوران ڈائری لکھی جو عوامی حلقوں میں بیحد پسند کی گئی۔ سندھی زبان میں شائع ہونے والی ان کی ڈائری کو بیرون ملک بھی پذیرائی ملی۔

کتب بینی کے شوقین رسول بخش پلیجو نے 26 سے زائد کتب قلمبند کیں۔ ’رسول بخش کی مکمل تحریریں‘ کے عنوان سے ان کی تمام کتب کو تین جلدوں میں یکجا کرکے شائع کیا جاچکا ہے۔

ہائی کورٹ اورسپریم کورٹ میں بحیثیت وکیل پیش ہونے کا وسیع تجربہ رکھنے والے رسول بخش پلیجو کا نام 2013 کے عام انتخابات سے قبل نگراں وزیراعظم کے طور پر بھی زیرغورآیا تھا۔


متعلقہ خبریں