شگری بالا، ناگن رانی کی مسحور کن وادی


غیور اور محب وطن لوگوں کی سر زمین بلتستان میں ٹھنڈے پانیوں کے میٹھے چشمے ، کوہسار، نخلستان اور ٹھاٹھیں مارتے دریاؤں کی بے ہنگم آوازیں زندگی کو فطرت کے قریب تر کرتی ہیں۔

بلتستان کی کئی چھوٹی وادیاں ایسی ہیں جہاں زندگی ہمیشہ رقصاں رہتی ہے ، کچھ وادیاں آج بھی سیاحوں کی نظروں سے اوجھل ہیں، گو ان وادیوں کا دیومالائی حسن دیکھنے والے کو مسحور کر دیتا ہے لیکن نفسا نفسی کے باعث آج کا انسان گھر تک محدوو ہو کر رہ گیا ہے۔

بلتستان کے صدر مقام اسکردو کے دامن میں واقع شگری بالا اسکردو کے ماتھے کے جھومر کی حیثت رکھتی ہے ، یہ وادی شہر اسکردو کے بالکل قریب واقع ہے ، اس وادی کے سحر سے نکلنے کو کبھی من نہیں کرتا۔

بزرگوں کا کہنا ہے کہ ایک پری چہرہ خاتون شکر بی کسی زمانے میں اس وادی کی رانی ہوا کرتی تھی ، اس رانی کے شوق بھی بڑے نرالے تھے ، سو اُس نے ایک منفرد شوق پال لیا ، وہ سانپوں کو پالنے کی شوقین تھی ، اس پری وش خاتون کے نام کی نسبت اسے شروع میں شکری کہا گیا لیکن بعد ازاں یہ نام بگڑ کر شگری بالا ہو گیا۔

اس وادی سے قبل شگری کلاں آتا ہے ، شگری کلاں سے جب شگری بالا کی طرف رخ کیا جائے تو جوں جوں بلندیوں کی طرف بڑھتے ہیں، آنکھ ششدر اور دل بے تاب سا ہو جاتا ہے۔

شگری بالا کے دامن سے انچن کی سر زمین اسکردو کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے ، شگری بالا پہنچ کر ایسا لگتا ہے کہ فطرت نے اس وادی کو انتہائی نفاست سے سنوارا ہے ، شہر اسکردو آپ کی ہتھیلی پر نظر آتا ہے اور ہر طرف سبزے کی بہار آپ کو فطرت سے پیار کرنے پر اُکسا رہی ہو، ویو پوائنٹ سے اسکردو شہر سمیت گمبہ اسکردو، چندہ، تنجوس اور حسن آباد کو دیکھا جا سکتا ہے ، اس خطے کو قدرتی دوربین کہا جائے تو بھی بے جا نہ ہو گا۔

آگے جا کر بدھ مت کے دور کا بوسیدہ اور نیم منہدم محل ملتا ہے، گو اب محل خستہ حالی کا شکار ہے لیکن یہ محل ایک عجیب طلمساتی کیفیت کا حامل ہے ، اونچے ٹیلے پر بنائے گئے اس محل سے پورا شہر نظر آتا ہے ، ٹھنڈی ہوائیں جسم میں تازگی سی پیدا کر دیتی ہیں، اس محل میں آپ خود کو ماضی اور حال کی درمیانی کیفیت میں پرسکون اور پریوں کے مسکن کا باسی تصور کرنے لگتے ہیں ۔

یہ وادی بزرگوں کی وادی بھی کہلاتی ہے ، ایک عجب صوفیانہ ماحول ہے اس خطے کا ، ہر شخص ملنسار اور پیار کرنے والا ہے، اس وادی کے لوگ اتنے اچھے ہیں کہ تمام مثالیں بھی کم پڑ جائیں، ان سے پہلی بار مل کر ایسا لگتا ہے کہ گویا ان سے واسطہ صدیوں پرانا ہو۔

شاید یہ کمال صاف ماحول کا ہو یا قدرتی حسن کا لیکن حقیقت یہی ہے کہ یہاں کے رہنے والے طویل عمر پاتے ہیں ، شگری بالا کی اماں اب خیر سے ایک سو پندرہ سال کی ہو گئی ہے لیکن تندرست ایسی کہ ہم خود کو ضعیف محسوس کرنے لگتے ہیں۔

روایات کے مطابق ایک زمانے میں تین بزرگ یہاں آئے تھے ، انہوں نے جس جگہ قیام کیا وہاں اپنے اپنے عصا گاڑ دیے ، آج ان تین بزرگوں کے عصا ایک تناور درخت بن چکے ہیں اور اس درخت  کی چھاؤں پورے شگری بالا کے ماحول کو متبرک کر رہی ہے۔

کہا جاتا ہے کہ اس درخت کا پھول گود ہری کر دیتا ہے جو لوگ اولاد کی نعمت سے محروم ہیں ، اس درخت کا پھل ان کے لیے نسخہ اکسیر ہے ، اکثر حاجت مند اس درخت کے پھول کو متبرک مانتے ہیں ۔

ناگن رانی یعنی شکر بی کے بغیر شگری بالا  کا تذکرہ نامکمل ہے ، ناگوں سے پیار کرنے والے پری ناگن شکر بی اپنے سانپوں کو جہاں دودھ پلایا کرتی تھی وہ پتھر آج بھی موجود ہے ، ناگن کا ناگوں سے پیار کا یہ عالم تھا کہ اس نے ایک پتھر پر چھید کرائے اور ان چھیدوں میں بعد ازاں پیالے نصب کیے گئے، شگری بالا کے ناگ صدیوں پہلے بڑے بھرم سے اس پتھر پر آ کر دودھ پیا کرتے تھے اور اپنی ناگن رانی کا شکریہ بھی ادا کیا کرتے تھے۔


متعلقہ خبریں