جھیل سیف الملوک، آدم زاد اور پری کی محبتوں کی امین


اسلام آباد سے 257 کلو میٹر کے فاصلے پر برف پوش پہاڑوں اور سر بہ فلک چوٹیوں میں گھری سطح سمندر سے 7500 فٹ بلند اور 800 مربع کلو میٹر رقبے پر محیط  دنیا کی وہ خوبصورت اور جنت نظیر وادی واقع  ہے جسے وادی کاغان کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس وادی میں کم وبیش نو چھوٹی بڑی جھیلیں موجود ہیں جن کی وجہ سے اسے جھیلوں کی نیلگوں سرزمین کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

ویسے تو اس وادی کا چپہ چپہ دلکش اور قدرت کے حسین نظاروں سے مالا مال ہے لیکن جھیل سیف الملوک کو وادی کاغان کا جھومر کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کیونکہ اس جھیل کا شمار دنیا کی چند سحر انگیزجھیلوں میں کیا جاتا ہے۔

ناران شہر سے نو کلومیٹر دور اور وادی کاغان کے انتہائی شمالی سرے پر سطح سمندر سے 10578 فٹ بلندی پر واقع جھیل سیف الملوک تین اطراف سے برفیلی چوٹیوں میں گھری ہوئی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ جھیل تین لاکھ  سال پہلے اس وقت وجود میں آئی جب وادی کاغان کا تمام علاقہ برف سے ڈھکا ہوا تھا اور ایک بہت بڑے برفانی تودے نے ٹوٹ کر اس دریا کے پانی کو روک لیا جو جھیل کے عین وسط سے گزر رہا تھا۔

یہ دریا، دور حاضر کا دریائے کنہار ہے جو اب بھی اپنے پانی کا بڑا حصہ اسی جھیل سے حاصل کرتا ہے۔

جھیل سیف الملوک کی وجہ شہرت اس کی خوبصورتی سے زیادہ وہ رومانوی داستان ہے جس نے اسی کے شفاف پانیوں میں جنم لیا تھا۔ یہی وہ جھیل ہے جہاں داستان نویسوں، شاعروں اور مقامی لوگوں کے مطابق سیف الملوک نامی آدم زاد اور بدیع الجمال نامی پری کی محبت پروان چڑھی اور پھر اپنے منطقی انجام کو بھی پہنچی۔

مقامی قصہ گو، جھیل سیف الملوک کی سیر کے لیے آنے والوں کو شہزادہ سیف الملوک اور پری بدیع الجمال کی داستان محبت سنا کر پیسے بھی کماتے ہیں۔

پیالہ نما جھیل سیف الملوک کی لمبائی 1420 فٹ، چوڑائی 450 فٹ اور اوسط گہرائی 50 فٹ کے لگ بھگ ہے۔ اس کے عین عقب میں ملکہ پربت، برفانی لبادہ اوڑھے اپنی خوبصورتی اور جوبن کا نظارہ کرا رہی ہے۔ 17390 فٹ بلند اس پہاڑ کو آج تک کوئی سر نہیں کر سکا۔

بعض لوگوں کے خیال میں یہ صرف ایک پہاڑ ہے، کچھ اسے بدیع الجمال کا عاشق وہ سفید دیو قرار دیتے ہیں جسے سیف الملوک کی بد دعا نے پہاڑ میں تبدیل کر دیا تھا جبکہ کئی ایک کا کہنا ہے کہ 360 پریوں کا غول اسی پہاڑ سے اتر کر جھیل میں غسل کے لیے آیا کرتا تھا۔

انہی میں سے ایک بدیع الجمال بھی تھی جو بعد ازاں سیف الملوک کے دام الفت میں گرفتار ہو کر دنیا کی عظیم رومانوی داستانوں میں امر ہو گئی۔

مقامی داستان گو اور جھیل پر سیاحوں کو گھڑ سواری کرانے والے افراد کا کہنا ہے کہ اب بھی چاند کی ہر چودہویں شب، پریوں کے جھرمٹ اس جھیل پر رقص اور غسل کے لیے اترتے ہیں۔ اس کے ثبوت کے طور پر وہ یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ چودہویں شب کو ان کے گھوڑے بدکتے ہیں، مختلف آوازیں نکالتے ہیں اور جھیل کی جانب جانے سے کتراتے ہیں کیونکہ بقول ان کے، گھوڑا ان عقل مند اور سمجھ دار جانوروں میں سے ایک ہے جو نہ صرف کسی بھی غیر انسانی مخلوق کو دیکھ سکتے ہیں بلکہ ان کے قریب جانے سے بھی کتراتے ہیں۔

اس کے علاوہ جھیل سیف الملوک سے آٹھ کلومیٹردور ناران کے مین بازار کے عقب میں ایک غار واقع ہے۔ لوگ اس غار کو بھی شہزادہ سیف الملوک اور بدیع الجمال کی محبت کا ایک اچھوتا اور لازوال ثبوت قرار دیتے ہیں۔

روایت ہے کہ کہ سیف الملوک اور بدیع الجمال نے سفید دیو سے بچنے کے لیے اسی غار میں پناہ لی تھی۔

جھیل سیف الملوک سے منسوب رومانوی داستان کا مرکزی کردار شہزادہ سیف الملوک حضرت عیسیٰ کی پیدائش سے لگ بھگ 866 سال قبل برسر اقتدار مصر کے بادشاہ کا بیٹا بتایا گیا ہے لیکن بعض حضرات نے اسے دہلی کا شہزادہ بھی لکھا ہے۔ اسے خواب میں ایک حسین و جمال پری کا دیدار کرایا جاتا ہے اور وہ جی جان سے اس پر فریفتہ ہو جاتا ہے۔ وہ اپنی مملکت کے سبھی نجومیوں سے اس حسین پری کا اتہ پتہ معلوم کرتا ہے تو اسے بتایا جاتا ہے کہ یہ پری موجودہ کاغان کے علاقے ناران میں ایک جھیل کنارے اسے مل سکتی ہے۔

نجومیوں نے شہزادے کو یہ بھی بتایا کہ پری کے حصول کے لیے اسے بارہ سال کی ریاضت بھی کرنی ہو گی۔ شہزادہ ایک نہایت پر خطر سفر کے بعد اس جھیل کے کنارے پہنچتا ہے جو آج کی جھیل سیف الملوک ہے۔ بارہ سال کی ریاضت کے بعد ایک دن وہ پری کے تصور میں آنکھیں بند کیے بیٹھا ہوتا ہے کہ اسے پروں کی پھڑپھڑاہٹ سنائی دیتی ہے۔

آنکھیں کھولنے پر شہزادے کو پریوں کی ملکہ بدیع الجمال 360 پریوں کے ہمراہ غسل کے لیے جھیل پر اترتی نظر آتی ہے۔ پریاں کسی آدم زاد کی موجودگی سے بے خبر اپنی پوشاکیں تہہ کر کے جھیل کنارے رکھ  دیتی ہیں اور خود نہانے کے لیے پانی میں اتر جاتی ہیں۔

شہزادہ سیف الملوک، پری  بدیع الجمال کی پوشاک اٹھا کر چھپا دیتا ہے لیکن اسی اثنا میں پریوں کی اس پر نظر پڑ جاتی ہے اور وہ جھیل سے نکل کر اپنا اپنا لباس پہن کر پرواز کر جاتی ہیں۔ جب بدیع الجمال شہزادے سے اپنے کپڑے طلب کرتی ہے تو وہ اس سے شادی کی شرط رکھتا ہے۔ پری پہلے تو انکار کرتی ہے لیکن جب شہزادہ اسے اپنی ریاضت کے بارے میں بتاتا ہے تو وہ رضامند ہو جاتی ہے۔

دوسری جانب پری کے منگیتر سفید دیو کو اس تمام صورت حال کا علم ہو جاتا ہے اور وہ جھیل پر پہنچ کر اس کا بند توڑ دیتا ہے جس سے وادی میں سیلاب آجاتا ہے۔ شہزادہ اور پری اس سے بچنے کے لیے اسی غار میں پناہ لیتے ہیں جو ناران کے مین بازار کے عقب میں واقع ہے۔

کہتے ہیں کہ ناران اس زمانے میں ایک بڑا شہر تھا لیکن سیلاب نے اسے تباہ و برباد کر دیا تھا۔ پانی اس غار میں بھی بھر جاتا ہے جہاں شہزادہ اور پری چھپے ہوتے ہیں۔
اس قصے کو درجنوں شعرا نے منظوم کیا ہے لیکن جو شہرت میاں محمد بخش کی داستان کو ملی وہ کسی اور کو نصیب نہ ہو سکی۔ میاں محمد بخش کی اس تصنیف کا نام سفر العشق المعروف بہ قصہ سیف الملوک و بدیع الجمال ہے جو 9248 اشعار پر مشتمل ہے۔ لہندی (پہاڑی) زبان میں لکھے جانے والے اس کلام میں شریعت، طریقت، حقیقت اور معرفت بہ درجہ کمال موجود ہے، حسن و جمال کی ہو بہو تصویر کشی بھی ہے اور مظاہر قدرت کی منظر نگاری بھی۔

مقامی باشندوں کا عقیدہ ہے کہ سیف الملوک اور بدیع الجمال آج بھی غار میں زندہ ہیں، یہ دعویٰ حقییقت سے زیادہ افسانہ ہی سہی لکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ غار تو کیا پوری وادی کاغان میں اب بھی بدیع الجمال کے جسم کی خوشبو اور سیف الملوک کے سانسوں کی مہک رچی بسی ہے۔


متعلقہ خبریں