پوچھا کسی نے چاند نکلتا ہے کس طرح


یہ شعر تو ہر دوسرے شخص نے سن رکھا ہو گا کہ
پوچھا کسی نے چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے جھٹکا دیا کہ یوں
لیکن یہ بات کم لوگوں کو معلوم ہے کہ وہ چاند کیسے نکلتا ہے جسے دیکھنے کے لیے ہر مہینے رویت ہلال کمیٹی بیٹھتی ہے اور اس کے اعلان کے مطابق ہم اپنے مذہبی تہوار مناتے ہیں۔
عید کی آمد آمد ہے اور اگلے ایک دو روز میں ایک بار پھر رویت ہلال کمیٹی کا اجلاس ہونے جا رہا ہے تاکہ شوال کا چاند نظر آنے یا نہ آنے کا فیصلہ کیا جا سکے۔
آئیے! آپ کو بتاتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے چاند کی ازسرنو ’پیدائش‘ اور اس کے نظر آنے یا نہ آنے کا کیا طریقہ وضع کر رکھا ہے۔
اللہ تعالیٰ کی پیدا کردہ یہ کائنات بہت وسیع ہے، معلوم کائنات میں تقریباً دو سو بلین کے لگ بھگ کہکشائیں دریافت ہو چکی ہیں، ہر کہکشاں بذات خود اربوں ستاروں کا ایک دستہ یا گروپ ہوتا ہے جو کشش کی قوت کے ذریعے ایک دوسرے سے جڑا ہوتا ہے۔

ہر ستارے کا ایک خاندان یا نظام ہوتا ہے جس کے گرد سیارے ، سیارچے اور دم دار سیارے گھوم رہے ہوتے ہیں اور چاند سیاروں کے گرد گردش کرتے ہیں۔
کائنات میں کوئی چیز جامد یا ساکن نہیں،  جس طرح قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ ’’ کل فی فلک یسجون‘‘ ستاروں کی اپنی روشنی ہوتی ہے لیکن سیاروں اورچاند کی اپنی روشنی نہیں ہوتی بلکہ یہ ستاروں سے روشنی حاصل کرتے ہیں۔

ہمارا سورج بھی ایک ستارہ ہے جس کے گرد آٹھ سیارے اور ہزاروں سیارچے گھوم رہے ہیں۔ سورج کے خاندان میں بعض سیاروں کے کئی کئی چاند دریافت ہوچکے ہیں اور بعض کے چاند کا ابھی تک پتہ نہیں چلا ہے مثلا عطارد اور زہر ہ کا کوئی چاند دریافت نہیں ہوا۔

زمین کا ایک چاند ہے ، مریخ کے دو ، مشتری کے 68 ، زحل کے 62 ، یورنیس کے 27 ، نیپچون کے 14 اور پلوٹو کے پانچ چاند دریافت ہوچکے ہیں، اس طرح اب تک ’صرف‘ نظام شمسی میں دریافت ہونے والے ’چاندوں‘ کی تعداد 181 تک پہنچ چکی ہے۔
زمین کا ایک ہی چاند ہے جو زمین کے گرد 2288 میل فی گھنٹہ کی رفتار سے ایک بیضوی شکل کے مدار میں گھوم رہا ہے، چاند چودہ لاکھ 23 ہزار میل کا فاصلہ 27 دن سات گھنٹے اور 34 منٹ میں مکمل کرتا ہے۔

آسمان پر دیگر ستاروں کے حساب سے یہ چاند کا ایک مہینہ بنتا ہے لیکن چونکہ چاند گردش کے دوران زمین کا ساتھ نہیں چھوڑتا اور زمین سورج کے گرد گردش کرکے کچھ آگے نکل جاتی ہے اس لیے چاند کو مزید فاصلہ طے کرنا پڑتا ہے، اس طرح 29 دن 12 گھنٹے میں دوبارہ ’نئے‘ چاند کا آغاز ہوتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ  قمری مہینہ ساڑے 29 دن اور قمری سال تقریبا 354 دنوں کا ہوتا ہے۔ چاند کا مدار بیضوی ہونے کی وجہ سے چاند اور زمین کے درمیان فاصلہ کبھی کم سے کم ہو کر 221463 میل رہ جاتا ہے اور کبھی زیادہ سے زیادہ ہوکر 252710 میل ہو جاتا ہے، چاند اور زمین کا اوسطاً فاصلہ 238840 میل ہی رہتا ہے۔

چاند کے ماضی کے بارے میں سائنسدانوں کی مختلف آرا ہیں، کچھ کا خیال ہے کہ یہ زمین کا ایک علیحدہ شدہ حصہ ہے اور بعض کہتے ہیں کہ یہ بحرالکاہل کے مقام سے کسی وجہ سے جدا ہوا ہے، ایسے بھی لوگ ہیں جو یقین رکھتے ہیں کہ چاند کہیں اور پیدا ہوا لیکن پھر زمین نے اسے اپنی کشش کے زیراثر لے کر اپنے گرد گھومنے پر مجبور کر دیا ہے۔

دلچسپ امر ہے کہ اتنی سائنسی ترقی کے باوجود انسانی علم انتہائی محدود ہے چنانچہ حتمی طور پرکوئی بھی بات نہیں کہی جا سکتی اوراسی پر قناعت ہے کہ مالک یوم الدین ہی بہتر جانتا ہے۔
تمام ترانسانی ’مجبوریوں ‘ کے باوجود انسانی علم بہرحال یہ جاننے میں کسی حد تک کامیاب ہو گیا ہے کہ چاند کی عمر چار ارب تیس کروڑ سال ہے،  زمین کی عمرانسانی علم کے مطابق  چار ارب پچاس سے ساٹھ  کروڑ سال گردانی جاتی  ہے، گویا چاند زمین سے 20 سے 30 کروڑ سال چھوٹا ہے۔

چاند کی پیدائش زمین کے آسمان پر ایک ہی وقت میں ہوتی ہے لیکن چاند پیدا ہوتے ہی انسانی نظر میں آنے کے قابل نہیں ہوتا، کافی وقت گذرنے کے بعد یہ انسانی ’نظر‘ میں آنے کے قابل ہوتا ہے۔
اگر چاند زمین کے قریب ہو تو پیدائش کے 17 گھنٹے کے بعد کی ’عمر‘ کا چاند انسانی نظر میں آسکتا ہے لیکن اگر فاصلہ زیادہ ہو تو 24 گھنٹے کے بعد کا بھی چاند انسانی نظر میں نہیں آتا۔
یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ دوسرے دن کے چاند کا سائز دیکھ  کربعض افراد کو یہ شبہ ہوتا ہے کہ حکومتی اداروں سے ایک دن کی غلطی ہوگئی ہے کیونکہ انہیں چاند کا سائز بڑا نظر آرہا ہوتا ہے لیکن عملاً یہ بات درست نہیں۔

ہوتا کچھ یوں ہے کہ  اگر پہلے دن چاند کی عمر 15 یا 16 گھنٹے کی ہو تو وہ انسانی نظر میں نہیں آئے گا، اس طرح دوسرے دن کا چاند  40=24+16 گھنٹے کا ہو جائے گا جو بڑا ہوگا اور زیادہ عرصے تک افق پرنظر بھی آئے گا، اسی طرح 29 دن والے مہینے کے چاند سے 30 دن والے مہینے کا چاند بڑا دکھائی دے گا۔

مشاہدے اور تجربے کی بنیاد پر ہم کہتے ہیں کہ 20 گھنٹے کی عمر والا چاند 45 منٹ افق پر رہے گا اور40 گھنٹے کی عمر والا چاند 90 منٹ اُفق پر رہے گا، اس کے علاوہ شرقی نصف کرے کے مغربی علاقوں میں چاند پہلے نظر آ سکتا ہے کیونکہ مشرقی علاقوں میں عمر کم ہونے کی وجہ سے چاند نظر نہیں آ سکتا جبکہ مغربی علاقوں میں پہنچتے پہنچتے اس کی عمر زیادہ ہونے کی وجہ سے بڑا ہوتا ہے اور وہ نظر بھی آتا ہے۔
ہمارے ملک کے انتہائی مغربی علاقوں مثلاً گوادر ، پسنی اور جیوانی وغیرہ میں دوسرے علاقوں کی نسبت چاند نظر آنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں، مشرقی وسطیٰ کے ممالک میں بھی اسی لیے چاند پہلے نظر آتا ہے، موسم گرما میں ملک کے انتہائی شمالی علاقوں مثلاً چترال اور گلگت میں چاند نظر آنے کے امکانات ہو سکتے ہیں۔
چاند نظر آنے کے لیے سورج ، چاند اور زمین کے درمیان بننے والے زاویے کی بھی اہمیت ہوتی ہے اگر یہ زاویہ نو درجے سے کم ہو تو سائز بڑا ہو کر بھی چاند نظر نہیں آ سکتا اور اس کے علاوہ موسم اور افق کی شفافیت بھی اہمیت کی حامل ہیں، بادل چھا جائیں اور گرد آلود ہوا کی کیفیت ہو تو تب بھی چاند نظر نہیں آ سکتا۔
یہ بھی طے ہے کہ سائنسی طور پر مستقبل کے چاند کی پوزیشن کے بارے میں تو بات کی جا سکتی ہے لیکن رویت ہلا ل کے بارے میں یقینی پیشگوئی نہیں کی جاسکتی کیونکہ اس میں کئی ایک عوامل ہیں جو یکساں نہیں رہتے۔ اسی لیے حدیث مبارکہ میں بھی چاند دیکھ  کر روزہ رکھنے اورچاند دیکھ کر افطار کا حکم دیا گیا ہے۔


سائنسی طور پر رویت ہلا ل کا کوئی کیلنڈر مرتب نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی ہم کسی اور ملک کے اعلان اور مرتب کردہ کیلنڈر کی پیروی کرنے کے پابند ہیں۔
اس سال نیا چاند جمعرات 14 جون 2018 کی شام دکھائی دینے کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا غالب امکان یہی ہے کہ رمضان المبارک کے 30 ایام مکمل کرنے کے بعد عیدالفطر 16 جون کو ہو گی۔
سیکرٹری جنرل رویت ہلال ریسرچ کونسل خالد اعجاز مفتی کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا ہے کہ نیا چاند جمعرات 14 جون 2018 کی شام دکھائی دینے کا امکان تقریباً نہ ہونے کے برابر ہے لہٰذا رمضان المبارک کے 30 ایام مکمل کرنے کے بعد عیدالفطر 16 جون کو ہوگی۔
نیا چاند اس وقت تک دکھائی نہیں دیتا جب تک اس کی عمر غروبِ آفتاب کے وقت کم از کم 19 گھنٹے سے زائد نہ ہو اورغروبِ شمس و غروبِ قمر کا درمیانی فرق کم از کم 40 منٹ سے زائد نہ ہو جائے، نیا چاند 13 اور 14 جون کی درمیانی شب پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق 12 بجکر 43 منٹ پر پیدا ہو گا۔
نئے چاند کی عمر 14 جون 2018 کو غروبِ آفتاب کے وقت پاکستان کے کسی بھی شہر میں 19 گھنٹے سے زائد نہیں ہو گی، غروبِ آفتاب و غروبِ قمر کا درمیانی فرق پاکستان کے تمام شہروں میں 40 منٹ سے کم ہوگا لہٰذا رمضان المبارک کے 30 دِن پورے ہونے کے بعد عید الفطر ہفتہ 16 جون بروز ہفتہ کو منائی جائے گی۔
محکمہ موسمیات نے بھی شوال کا چاند جمعرات کو نظر آنے کے حوالے سے کہا تھا کہ سائنسی لحاظ سے 29 رمضان المبارک کو شوال کا چاند نظر آنے کے امکانات کم ہیں، محکمہ موسمیات نے شوال کے چاند کی عمر کے حوالے سے وزارت مذہبی امور کو تفصیلات بھی بھجوائی تھیں۔


محکمہ موسمیات کے مطابق شوال کے چاند کی پیدائش 14 جون کو شب 12:45 پر ہو گی، غروب آفتاب سے چاند 39 منٹ تک آسمان پر دکھائی دے گا، سورج غروب ہونے پر چاند کی عمر 19 گھنٹے 3 منٹ ہو گی۔
اس لیے تیار رہیے کہ تمام پاکستانی اس بار عیدالفطر ہفتہ 16 جون کو ہی منائیں گے، انشا اللہ ۔


متعلقہ خبریں