نادہندہ کون؟نوابزادہ نصراللہ،نصرت بھٹو،کھر،لالیکا،گیلانی،مخدوم اورلغاری


اسلام آباد: آئندہ عام انتخابات 2018 نے سیاستدانوں کا ’مزید‘ پول کھول دیا ہے۔ فیڈرل لاجز قصر ناز نے الیکشن کمیشن،متعلقہ سرکاری اداروں اورعوام الناس کو بتایا ہے کہ 100 سے زائد سیاستدان اس کے بھی نادہندہ ہیں۔

قصرناز کے مقروض سیاستدانوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو داعی اجل کو لبیک کہہ کردنیاوی رجسٹر بند کرا چکے ہیں لیکن سرکاری رہائش گاہ میں ان کے نام کا رجسٹر ’نادہندہ‘ ہونے کی وجہ سے تاحال کھلا ہوا ہے۔

افسوسناک امرہے کہ رئیس حکمرانوں نے اپنےان ’بزرگوں‘ کے بھی چند ہزار یا سو کے قرض نہیں اتارے جن کی وجہ سے وہ 22 کروڑعوام پر حکمرانی کے ’اہل‘ قرار پارہے ہیں اورسیاسی و خاندانی وراثت ان کا مقدر ٹھہری ہے۔

ہم نیوز کے مطابق 100 سے زائد ایسے سیاستدان ہیں جو وزرا، سینیٹر یا رکن اسمبلی کی حیثیت سے قصر ناز میں آئے اورکھا پی کر بل ادا کیے بغیر چلتے بنے۔

مجبور اور بے بس وفاقی ملازمین نے کھا پی کر چلتے بننے والوں کے ناموں کا جو ریکارڈ مرتب کیا وہ ہرگزرتے سال کے ساتھ موٹا اوربھاری ہوتا جارہا ہے۔

فیڈرل لاجزقصرناز کراچی کے رجسٹر میں درج ہے کہ پی پی پی کی سابقہ چیئرپرسن اور دنیا کو خیرباد کہہ چکنے والی بیگم نصرت بھٹو پر 1995 سے 800 روپے واجب الادا ہیں۔

بابائے جمہوریت نوابزادہ نصراللہ خان پر 1994 سے 980 روپے واجب الادا ہیں۔ وہ بھی آسودہ خاک ہوچکے ہیں۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی کابینہ کے وفاقی وزیر مولانا کوثر نیازی کو  قصر ناز کے 140 روپے دینے ہیں مگراب ادائیگی میں ’زمانوں‘ کا فاصلہ حائل ہے۔

سابق صدر پاکستان فاروق احمد خان لغاری بھی 340 روپے کی ادائیگی کے بغیر داعی اجل کو لبیک کہہ گئے ہیں۔ ’عدم آباد‘ جانے کی جلدی میں سابق وفاقی وزیراطلاعات عبدالستارلالیکا کو بھی قصرنازکے 420 روپے ادا کرنے کی مہلت نہیں ملی ۔

سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کو ان کی سیاسی مصروفیات نے وقت ہی نہیں دیا کہ وہ 555 روپے قصر ناز کے ادا کرآئیں جو 1993 سے ان پر واجب الادا ہیں۔

’مینڈا سائیں‘ نامی کتاب کا مرکز قراردیے جا سکنے والے ملک غلام مصطفیٰ کھر کو بھی 1995 سے موقع نہیں ملا کہ وہ قصر ناز کے 560 روپے ادا کرسکیں۔

سابق وزیراعلیٰ سندھ  ارباب غلام رحیم کومہلت نہیں ملی کہ وہ 90 کی دہائی سے خود پرواجب الادا 13510 روپے کا قرضہ چکا دیں۔

قصرنازکا رجسٹربتاتا ہے کہ سابق رکن قومی اسمبلی نواب یوسف تالپور 1994 سے 320 روپے کا قرضہ نہیں اتارسکے تو مخدوم رفیق الزماں کو بھی 22632 روپے کا ’قلیل‘ قرضہ دینے کا موقع نہیں مل سکا ۔

اعداد وشمار دیکھ کر یہی کہا جاسکتا ہے کہ چند سو ہوں،چند ہزار ہوں اوریا پھر بات لاکھوں کروڑوں سے ہو کر اربوں تک جاتی ہو، سیاستدانوں نے سرکاری خزانے اورمال کو ’مال مفت دل بے رحم‘ کے فامولے پر ہی’تقسیم‘ کرنا ہے۔


متعلقہ خبریں