لالہ زار، کاغان کی سوہنی کا مسکن


لالہ زار کو دلکش اور مہکتے پھولوں کی سرزمین کہا جاتا ہے، یہ گلستان فردوس ناران سے محض 18 کلومیٹر کے فاصلے اور 10246 فٹ کی بلندی پر وادی کاغان کے حسین ترین مقامات میں سے ایک ہے۔
یہاں پہنچنے کے دو راستے ہیں، پہلا تو یہ ہے کہ آپ جیپ کے ذریعے کوئی ایک گھنٹے کی مسافت طے کر کے لالہ زار پہنچیں لیکن یہ ذہن میں رہے کہ جیپ کا سفر انتہائی پر خطر اور دشوار گزار ہے۔ راستے میں ایسے موڑ آئیں گے کہ آپ کی اوپر کی سانس اوپر اور نیچے کی نیچے رہ جاتی ہے۔


سڑک کیا، ایک پگڈنڈی ہے جو بعض مقامات پر اتنی تنگ ہو جاتی ہے کہ آسمان سے تارے توڑ کر لانا گاڑی گزارنے سے آسان دکھائی دیتا ہے لیکن مہم جو اس کٹھن مرحلے کو بھی طے کر لیتے ہیں بس شرط یہ ہے کہ ڈرائیور پہاڑی راستوں پر ڈرائیونگ کا فن جانتا ہو۔
خطرناک ہونے کے باوجود اکثر سیاح لالہ زار پہنچنے کے لیے یہی راستہ اختیار کرتے ہیں کیونکہ اس طرح وہ جلد اس جنت نظیر وادی تک رسائی میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
وادی کاغان میں لالہ زار روڈ  کو’ مہلک ترین سڑک ‘ کہا جاتا ہے، خاص طور پر بٹہ کنڈی قصبے سے ذرا پہلے انتہائی تنگ موڑ کے بعد ناران سے آتے ہوئے سڑک کا تقریبأ چار کلومیٹر طویل ٹکڑا ہر آنے جانے والے کے اعصاب کا خوب امتحان لیتا ہے کیونکہ ایک جانب پہاڑ ہے تو دوسری جانب دور کہیں نشیب میں بہتا دریائے کنہار ہے، یہ اتنی بلندی ہے کہ اوپر سے گرنے والی کوئی بھی شے صرف سرمہ بن کر ہی دریا کے پانیوں تک پہنچ سکتی ہے۔


لالہ زار کو دوسرا راستہ جھیل سیف الملوک کے پہلو سے ایک ہائیکنگ ٹریک کی صورت جاتا ہے، یہ پیدل سفر چھ سات گھنٹوں پر محیط ہے اس لیے سوائے مہم جوئی کے شوقین افراد کے، کم ہی لوگ اسے استعمال کرتے ہیں۔ ویسے بھی اس ٹریک پر جانے والوں کے پاس ہائیکنگ کے لیے مخصوص اوزار و آلات ہونا بے حد ضروری ہے  ورنہ کوئی بھی غلط قدم آپ کو سینکڑوں فٹ گہری کھائی میں پہنچا سکتا ہے۔
راستے دونوں خطرناک لیکن بے حد حسین ہیں، ناران یا جھیل سیف الملوک سے لالہ زار تک قدم قدم پر نئی نئی اقسام کے مہکتے پھول اور پودے آپ کا استقبال کرتے ہیں جس سے سفر کی تھکن اور ڈر ختم ہو جاتے ہیں۔
لالہ زار کے راستے میں  ’ سوہنی کی آبشار‘ کا دلکش نظارہ آپ کو اس قدر لبھاتا ہے کہ آگے جانے کو بادل نخواستہ قدم اٹھانے پڑتے ہیں۔


لالہ زار میں قیام و طعام کی سہولت موجود ہے اور ایک ریسٹ ہاؤس بھی ہے، مقامی افراد صرف ہندکو سمجھتے ہیں لیکن بے حد ملنسار اور اس حد تک مہمان نواز ہیں کہ بسا اوقات آپ کے لیے اپنے گھر سے کھانے پینے کی اشیا کا بندوبست بھی کر دیتے ہیں۔
ویسے تو موسم یہاں پورا سال اپنے جوبن پر ہوتا ہے لیکن سیاحت کا اصل لطف جون اور جولائی کے مہینوں میں آتا ہے جب سبزے کے قالینوں اور خوبصورت پھولوں پر گروہ در گروہ رنگ برنگی تتلیاں منڈلاتی ہیں، یہ تتلیاں گو اب کم ہو گئی ہیں لیکن پھر بھی اتنی تتلیاں آپ کو پوری وادی کاغان میں کہیں نظر نہیں آئیں گی۔


بارشیں بے تحاشہ ہوتی ہیں جو ہیں تو باعث رحمت لیکن ان سے ایک نقصان بہرحال ہوتا ہے کہ لالہ زار ناقابل رسائی ہو جاتا ہے اور سیاحوں کو جھیل سیف الملوک یا ناران سے ہی لوٹنا پڑتا ہے۔
درہ بابوسر کے دامن میں واقع اس حسین خطے کی اصل پیداوار مٹر اور آلو ہیں لیکن ان کا ذائقہ سب سے الگ ہے جبکہ یہاں ایسے پودے بھی پائے جاتے ہیں جو ملک کے دیگر حصوں میں ناپید ہیں۔
ایک زمانے میں یہاں پاکستان کا قومی جانور مارخور بکثرت پایا جاتا تھا لیکن اب ان کی تعداد میں نمایاں کمی ہو چکی ہے۔ اسی طرح لالہ زار کے جنگلوں میں ریچھ اور چیتے بھی عام دیکھے جا سکتے تھے لیکن جب سے انسانی قدم یہاں پہنچے ہیں ان کی نقل و حرکت محدود ہو گئی ہے البتہ عقاب اور باز اب بھی لالہ زار کی فضاؤں میں اکثر محو پرواز دکھائی دیتے ہیں۔


عام خیال یہی ہے کہ بے پناہ اقسام کے رنگا رنگ پھولوں کی وجہ سے اس علاقے کو لالہ زار کہا جاتا ہے لیکن ایک قدیم لوک کہانی کے مطابق یہاں کاغان کی سوہنی اور لالہ افغانی کی رومانوی داستان نے جنم لیا تھا۔
سوہنی بے حد خوبصورت دوشیزہ تھی اور اکثر اس آبشار پر غسل کے لیے جایا کرتی تھی جو لالہ زار کے راستے میں واقع ہے، وہیں اس کی ملاقات لالہ افغانی سے ہوئی اور دونوں ایک دوسرے کے عشق میں گرفتار ہوگئے۔

یہ تو علم نہیں کہ دونوں ایک ہو سکے یا نہیں لیکن اس علاقے کا نام لالہ زار ضرور پڑ گیا جبکہ اس کے ایک طرف سوہنی کی آبشار ہے تو دوسری طرف سوہنی کا جنگل ۔۔۔ اور ممکن ہے کہ یہاں جانے والے محبت کے متوالوں کو آبشار، جنگل یا لالہ زار میں پھولوں سے ڈھکے میدانوں میں کہیں سوہنی اور لالہ کی چاہت کی خوشبو بھی آتی ہو۔


متعلقہ خبریں