بڑی سیاسی جماعتوں کے منشور میں تعلیم کا فروغ کتنا اہم؟

فوٹو: فائل


لاہور: ملک کی چاروں بڑی سیاسی جماعتوں نے اپنے منشور میں تعلیم کے فروغ کو اہم قراردیا ہے۔ ذیل میں ہم نے جائزہ لیا ہے کہ اقتدار میں آنے کے بعد پیپلزپارٹی، مسلم لیگ نواز، پاکستان تحریک انصاف اور متحدہ مجلس عمل نے تعلیم کے لیے کن اقدامات کا اعلان کر رکھا ہے۔

مسلم لیگ نواز نے تعلیم کے لیے پانچ نکاتی ایجنڈا اپنے منشور کی زینت بنایا ہے۔ منشورمیں سب سے زیادہ توجہ اعلی تعلیم پر دی گئی ہے جس کا بجٹ بڑھا کر جی ڈی پی اے کا صفر اعشاریہ پانچ فیصد کیا جائے گا۔ یونیورسٹوں کو اپنے فنڈز بڑھانےکے مواقعے، فکیلٹی میں خواتین کی نمائندگی، داخلے بڑھانےاورضلعی سطح پر کیمپس کھولنےوالی یونیورسٹیوں کی حوصلہ افزائی کےعلاوہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے پی ایچ ڈیز کی تعداد 15 ہزارسے بڑھانے کااعلان کیا گیا ہے۔ لیگی منشور میں پاک چین مشترکہ یونیورسٹیاں بنانے کا پروگرام فعال کرنے کااعلان بھی کیا گیا ہے۔

پیپلزپارٹی نےاپنےمنشور میں پرائمری ایجوکیشن پر زور دیا ہے۔ سرکاری تعلیمی اداروں میں مزدور کوٹےمیں اضافہ اور فیس معافی، لڑکیوں کے پرائمری اسکول کو لوئر سیکنڈری بنانا، اساتذہ کی تعداد بڑھانا اوران کی تربیت کرنا، اساتذہ کی بھرتیاں اور مینیجمنٹ اینڈ ٹیچنگ کیڈرکا قیام بھی پیپلزپارٹی کے منشورمیں شامل ہے۔ تعلیمی نصاب میں جدت اورسستی تعلیم، گھر بیٹھے مفت تعلیم، نوجوانوں کے لیے کیریئر کونسلنگ سنٹرز بنانا، آفات سے متاثر بچوں کے لیے اسکول بنانا اورطلبہ کو بلاسود قرضے فراہم کرنا بھی پیپلز پارٹی کے منشورمیں شامل ہے۔

پاکستان تحریک انصاف نے اپنےمنشور میں پرائمری، سکینڈری اور ہائرایجوکیشن پر یکساں توجہ دی ہے۔ منشور کےمطابق نصاب کا سالانہ جائزہ لینےکےلیے قومی کمیشن کی تشکیل، ہرزبان کی تعلیم کی پالیسی، پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ منصوبہ، دور دراز علاقوں میں تعلیم کیلیے ایجوکیشن فنڈ کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ 50 ہزار نوجوانوں کو مفت یونیورسٹی تعلیم، اساتذہ کی کوچنگ، لڑکیوں کے اسکولوں کواپ گریڈ کرنا، طالبات کو وظیفہ اورامتحانی بورڈ کےلیے نیشنل اسٹیرنگ کمیٹی کا قیام بھی پی ٹی آئی کےمنشور کاحصہ ہوگا۔ اس کے علاوہ منشور میں طلبہ اور ٹیچر ٹریننگ کے لیے تکنیکی یونیورسٹیوں کا قیام، وائس چانسلرکی شفاف تعیانتی اورملک کےتمام دینی مراکز کی رجسٹریشن اورفنڈنگ اوردنیاوی تعلیم کے اقدامات کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔

متحدہ مجلس عمل نے اپنے منشور میں تعلیم کا 14 نکاتی پروگرام پیش کرتے ہوئے طبقاتی نظام تعلیم ختم کر کے ہر طبقہ زندگی کے لیے تعلیم کے یکساں مواقع فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے۔ انٹرمیڈیٹ تک دینی و دنیاوی تعلیم کے امتزاج سے یکساں نصاب تعلیم کی تشکیل کے ذریعے ہر طالب علم کے لیے قرآن و حدیث کی تعلیم لازمی اور دینی مدارس کے طلبہ کے لیے عصری تعلیم لازمی قرار دی گئی ہے۔ اعلی تعلیم کا حصول آسان بناتے ہوئے طالبات کے لیے لازمی تعلیم کا اہتمام اور ان کے لیے ہر سطح پر خصوصی ادارے قائم کرنے کا کہا گیا ہے۔

ایم ایم اے کے منشور میں کہا گیا ہے کہ نظام تعلیم کو ملک کی نظریاتی اساس سے ہم آہنگ کر کے چبقاتی نظام تعلیم کا خاتمہ کرنے اور ہر سطح تک اسلامی نظام تعلیم کا نفاذ اور فنی تعلیم کو ترجیح دی گئی ہے۔ آئندہ پانچ برسوں میں شرح خواندگی 100 فیصد کرنے اور میٹرک تک تعلیم کو لازم اور مفت، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی، طلبہ کو ابتدائی طبی امداد، سلیف ڈیفنس سکھایا جائے گا، طلبہ یونینز کو بحال کیا جائے گا۔ ایسی پالیسی تشکیل دیں گے جس کے تحت ہر استاد کے لیے ریٹائرمنٹ کے بعد ذاتی مکان کا حصول ممکن بنایا جائے۔

متحدہ مجلس عمل کے منشور کے مطابق مقابلے کے امتحانات اردو میں دینے کی سہولت کے ساتھ تعلیم پر جی ڈی پی کا کم از کم پانچ فیصد خرچ کیا جائے گا جب کہ ہر صوبائی بجٹ میں تعلیم کے لیے کم از کم 25 فیصد رقم مختص کی جائے گی۔


متعلقہ خبریں